ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے پیشرفت میں سست روی پر سخت سوالات اٹھا دئیے

3 ماہ بعد بھی وقت مانگا جارہا ہے اتناعرصہ گزر گیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیرکیوں ہوئی، آئینی بینچ،عدالت نے صحافی ارشد شریف کے قتل کے کیس میں حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی پیشرفت رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیدیا

Faisal Alvi فیصل علوی جمعہ 7 مارچ 2025 12:19

ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس، سپریم کورٹ نے پیشرفت میں سست روی پر سخت ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔07 مارچ 2025)ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی جانب سے کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کے معاہدے کی توثیق کیلئے وقت مانگنے پر سپریم کورٹ نے پیشرفت میں سست روی پر سخت سوالات اٹھا دئیے، سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے کیس میں حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر ہونیوالی پیشرفت رپورٹ پیش کرنے کاحکم دیدیا، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے ارشد شریف قتل سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

کیس کی سماعت شروع ہوئی تو وفاقی حکومت نے کینیا کیساتھ باہمی قانونی امداد کے معاہدے کی توثیق کیلئے وقت مانگ لیا۔آئینی بینچ نے ارشد شریف قتل ازخود نوٹس کیس میں وفاقی حکومت کی ایک ماہ مہلت کی استدعا منظور کرلی۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ ایک ماہ میں صدر سے معاہدے کی توثیق کروا لی جائے گی۔کینیا کے ساتھ باہمی قانونی امداد کا معاہدہ ہوچکا ہے اور معاہدے کے مطابق اس کی توثیق کا عمل جاری ہے۔

بینچ نے مہلت کی استدعا پر تشویش اور حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 3 ماہ بعد بھی وقت مانگا جارہا ہے۔ اتناعرصہ گزر گیا پھر بھی ارشد شریف کیس میں اتنی تاخیرکیوں ہوئی۔ حکومت کو تو ارشد شریف کیس میں پتہ ہی کچھ نہیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ 10 دسمبر کو معاہدہ ہوا آج تک توثیق کیوں نہیں ہو سکی؟ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ سے روزانہ کی بنیاد پر پیشرفت رپورٹ مانگیں؟۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ تین ماہ بعد بھی وقت مانگا جا رہا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ صدر کو سمری کس نے بھیجنی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزارت داخلہ کابینہ کی منظوری کے بعد صدر کو سمری ارسال کرے گی، وزارت داخلہ سے میرا رابطہ نہیں ہو پا رہا جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ وزارت داخلہ کے افسر تو آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ 27 فروری کو کابینہ منظوری کے بعد وزارت خارجہ کو نوٹ بھجوا دیا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ معاہدے کی منظوری صدر نے دینی ہے تو کیا صدر مسترد بھی کر سکتے ہیں؟ جس پر قانونی مشیر وزارت خارجہ نے کہا کہ اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا۔ارشد شریف کی دوسری بیوہ جویریہ صدیق کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔

وکیل جویریہ صدیق نے دلائل میں کہا کہ کینیا کی ہائی کورٹ نے قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا، کینیا کی حکومت نے فیصلے کےخلاف اپیل کر رکھی ہے، حکومت پاکستان کیس میں فریق بنی اور نہ کوئی سپورٹ کی۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ خاتون اکیلی کینیا میں کیس لڑ رہی ہے تو حکومت کو ساتھ دینے میں کیا مسئلہ ہے؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کو جائے وقوعہ تک رسائی نہیں مل رہی، فریق بننے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا تفتیش کیلئے رسائی ضروری ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ رسائی اسی صورت میں ممکن ہوگی جب باہمی قانونی معاہدہ ہوگا، پاکستان میں تیس سے زائد افراد کے بیان ریکارڈ ہوچکے ہیں جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کئی سال سے سوموٹو زیرالتواءہے۔وکیل والدہ ارشد شریف نے کہا کہ حکومت نے معاملے پر فیکٹ فائنڈنگ کروائی تھی، استدعا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی کاپی فراہم کی جائے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میڈیا میں آنے سے پہلے ہی سارا مسئلہ بنا ہوا ہے۔بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ایک ماہ تک کیلئے ملتوی کر دی۔