مقبوضہ جموں وکشمیر میں عوامی مجلس عمل اوراتحاد المسلمین پر پابندی کی مذمت

بدھ 12 مارچ 2025 21:51

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 مارچ2025ء) غیرقانونی طورپر بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں میر واعظ عمر فاروق کی زیر قیادت جموں و کشمیر عوامی مجلس عمل اور مسرور عباس انصاری کی زیر قیادت جموں و کشمیر اتحاد المسلمین پر پابندی عائد کرنے کے مودی حکومت کے فیصلے پرمقبوضہ علاقے میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے کالے قانون کے تحت لگائی گئی پابندی کو سیاسی اور سول سوسائٹی کے حلقے کشمیریوں کے حقوق اور امنگوں کی ترجمانی کرنے والے اداروں کو ختم کرنے کی بھارتی حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے ہمیشہ پرامن اور جمہوری طریقوں سے کشمیریوں کی سیاسی امنگوں کی وکالت کی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اگست 2019سے کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے اور اختیارات سے محروم کرنے کی بھارت کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ طاقت کے ذریعے سچائی کودبایانہیں جا سکتا۔

اتحاد المسلمین کے سربراہ مسرور عباس انصاری نے عوام کے ساتھ اپنی تنظیم کے گہرے تعلق کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ تنظیموں پر پابندی لگا کر حقیقی مسائل کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی نے پابندی کو مقبوضہ علاقے میں سیاسی تنظیموں پر حملہ قرار دیا۔پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس کے رہنماعلی محمد ساگر نے پابندی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے میں میر واعظ خاندان کے تاریخی کردار کو اجاگر کیا۔

تحریک حریت جموں و کشمیر نے سرینگر میں ایک بیان میں بھارتی جیلوں میں نظر بند پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کی حالت زار پر تشویش کا اظہارکیاہے۔ بیان میں حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کے تحریک حریت کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔دریں اثناء ہزاروں کنال زرعی اراضی پر غیر ملکیوں کے لیے نئی کالونیاں تعمیر کرنے کے نئے بھارتی منصوبے سے مقامی کسانوں کے خدشات بڑھ گئے ہیں اور وہ اسے اپنی روزی روٹی پر ایک سوچا سمجھا حملہ سمجھتے ہیں۔

فلسطین میں اسرائیلی آبادکاری کی طرز پر اس اقدام کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے جس کا مقصد علاقے میں آبادی کا تناسب اور اقتصادی منظر نامے کو تبدیل کرناہے۔ سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ قابض حکام نے وادی کشمیر میں مذکورہ منصوبوں کے لیے تقریبا 4300کنال اراضی کی نشاندہی کی ہے۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے جس کے لئے بھارتی فوج اور خفیہ ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں ، ان کی آبائی زمینوں اور ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہے۔