جرمنی، کیا فریڈرش میرس خارجہ پالیسی چیلنجز کے لیے تیار ہیں؟ جرمنی، کیا فریڈرش میرس خارجہ پالیسی چیلنجز کے لیے تیار ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 22 مارچ 2025 17:20

جرمنی، کیا فریڈرش میرس خارجہ پالیسی چیلنجز کے لیے تیار ہیں؟   جرمنی، ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مارچ 2025ء) "پوری دنیا کی نظریں اس وقت جرمنی پر ہیں۔ ہمارے ذمے ایک ایسا کام ہے، صرف یورپی یونین ہی نہیں بلکہ تمام دنیا میں، جو ہمارے ملک کی سرحدوں اور ہمارے اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود سے بہت آگے ہے۔"

یہ جرمن پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی بنڈسٹاگ میں قدامت پسند سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) کے رہنما فریڈرش میرس کے الفاظ تھے، جب وہ بڑے پیمانے پر نئے قرضے لینے کا جواز پیش کرنے کی ایک کوشش کر رہے تھے۔

بعد ازاں بنڈسٹاگ میں قرضوں سے متعلق قانون میں اصلاحات کی منظوری بھی دے دی گئی۔

میرس کا خیال ہے کہ نئی حکومت کو سکیورٹی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اضافی فنڈز کی ضرورت ہو گی۔

(جاری ہے)

تو یہ چیلنجز آخر ہیں کیا؟

ٹرانس اٹلانٹک تعلقات

دس سال تک، فریڈرش میرس اٹلانٹک برکا یا اٹلانٹک برج کے چیئرمین رہے، جو کہ امریکہ اور جرمنی کے تعلقات کی مضبوطی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ہے۔

تاہم، ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بار امریکی صدر بننے کے بعد سے قریبی جرمن-امریکی شراکت داری میں میرس کا یقین بری طرح متزلزل ہوا ہے۔ ٹرمپ کی جانب سے کییفکو روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کے بعد میرس نے کہا، ''ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھے حیران کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ وہ ٹرمپ اور نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی عوامی تذلیل پر بہت برا محسوس کر رہے ہیں۔

اینگلا میرکل کے دور میں بھی جرمنی اور امریکہ میں تب کی ٹرمپ حکومت کے مابین تعلقات کوئی خاص دوستانہ نہیں تھے۔ اور اب قوی امکان ہے کہ میرس اور ٹرمپ کی ملاقات بھی نہ ہو۔میرس، جو نئے جرمن چانسلر ہو سکتے ہیں، پہلے ہی یوکرین کے لیے ایک اضافی امدادی پیکیج پر زور دے رہے ہیں۔ اس پیکج کی مالیت کم از کم تین بلین یورو ہوسکتی ہے۔ جرمنی کی پارلیمنٹ پہلے ہی "ڈیٹ بریک" یعنی ملک کے محدود حد تک ہی قرضے لینے کی پالیسی میں نرمی کرنے پر راضی ہے، تو اس پیکج کی لیے فنڈ مختص کرنے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں ہونا چاہیے۔

تاہم، اگر امریکہ یوکرین کو امداد کی فراہمی میں کمی کرتا ہے اور یورپ کو اس سے پیدا ہونے والے خلا پر کرنا پڑتا ہے، تو جرمنی کو شاید اس حوالے سے زیادہ فنڈز فراہم کرنا پڑیں۔

ایک اور مسئلہ یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹورس کروز میزائل فراہم کرنا ہے۔ میرس اس خیال کی حمایت کرتے ہیں، جب کہ مرکزی بائیں بازو کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے اسے موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولز کی قیادت میں ہمیشہ مسترد کیا ہے۔

یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ اس متنازعہ مسئلے پر مستقبل میں ایس پی ڈی ممکنہ طور پر ایک حکومتی اتحادی پارٹی کے طور پر اس بارے میں کیا موقف اپناتی ہے۔

دفاعی تعاون

میرس کو ابھی اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہے کہ "ٹرمپ کا امریکہ" نیٹو کے تحت دیگر ممالک کو مدد فراہم کرنے کی ذمہ داری کا پابند رہے گا یا نہیں۔ اسی لیے جرمنی کے حالیہ وفاقی انتخابات سے بالکل پہلے میرس نے کہا تھا کہ یورپ کے لیے ان کی ترجیح یہ ہے کہ وہ امریکہ پر انحصار کرنا چھوڑ کر جلد از جلد خودمختار بنے۔

درحقیقت، وہ یورپی ممالک کے درمیان دفاعی پالیسی پر قریبی تعاون کے ہدف کو حاصل کرنے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یورپ کی ایٹمی طاقتوں فرانس اور برطانیہ کے ساتھ جرمنی اور دیگر یورپ کے لیے جوہری تحفظ کے بارے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔

یورپی یونین

میرس نے ایس پی ڈی کے سیاست دان اور جرمن چانسلر اولاف شولز کی قیادت میں موجودہ حکومت پر یورپی تعاون کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔

ان کے مطابق جرمنی اور اس کے قریبی شراکت داروں فرانس اور پولینڈ کے مابین دوستانہ تعلقات کو نقصان پہنچا ہے۔

میرس اسے بابت بھی تبدیلیوں کے خواہاں ہیں لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔اور جرمنی کا فی الحال پیرس یا وارسا کے ساتھ قریبی تعلق نہیں ہے۔دوسری جانب یورپی یونین کے دیگر ممالک میں دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیوں کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

تجارتی پالیسیاں

مستقبل قریب میں ٹرمپ کی جانب سے یورپی اشیاء پر درآمدی ٹیکس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یورپ اس حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے کہ آگے کیا ہوگا۔

جو بات یقینی ہے وہ یہ کہ ٹرانس اٹلانٹک تجارت زیادہ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ جرمنی، ایک برآمد کنندہ ملک کے طور پر، خاص طور پر سخت متاثر ہو رہا ہے۔ جرمن معیشت بھی گزشتہ دو سالوں سے کساد بازاری کا شکار ہے اور ان تمام تر حالات میں یہ ایک اور چیلنج ہے۔

چین کے ساتھ تجارتی تعلقات

امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعے کے جواب کے طور پر برلن اور برسلز میں کچھ سیاست دان چین کے ساتھ دوبارہ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ تاہم، وہ دن جب جرمن برآمد کنندگان چین میں اچھا کاروبار کر رہے تھے، ماضی کا قصہ معلوم ہوتے ہیں۔ جرمن کاریں جو کبھی چین میں بہت مقبول تھیں، اب وہاں اپنی مقبولیت کھو چکی ہیں۔

چین سستی الیکٹرک کاریں تیار کر رہا ہے اور انہیں یورپی یونین میں کامیابی سے فروخت کر رہا ہے۔ اس کے ردعمل میں یورپی یونین اپنی مارکیٹ میں چینی الیکٹرک کاروں کی امپورٹ محدود رکھنے کی خواہاں ہے۔ تاہم برآمدات پر انحصار کرنے والے ملک کے طور پر جرمنی اس بات کو یقینی بنانے کا خواہاں ہے کہ چین کے ساتھ تجارت پر پابندیاں ایک حد سے زیادہ تجاوز نہ کر جائیں۔

میرس کو ماضی میں چین کے ایک نقاد کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ انہوں نے چانسلر اولاف شولز اور اس سے قبل اینگلا میرکل کو بیجنگ کے بارے میں سخت موقف اختیار نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

مشرق وسطی کا تنازعہ

مشرق وسطیٰ میں جنگ کے حوالے سے جرمن حکومت خاصی مشکل میں ہے۔ اسرائیل کی سلامتی ہر جرمن حکومت کے لیے اہمرہی ہے۔

تاہم جرمن سیاست دانوں نے بارہا غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف اسرائیل کی جانب سے جاری کریک ڈاؤن کو "غیر متناسب" قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔

غزہ کی پٹی میں جنگی جرائم کے شبے میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے خلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کی وجہ سے جرمن حکومت بھی مشکل میں ہے۔ جرمنی آئی سی سی کی حمایت کرتا ہے اور برلن حکومت پر یقینی طور پر زور دیا جائے گا کہ اگر نیتن یاہو جرمنی کا دورہ کریں تو انہیں گرفتار کیا جائے۔

تاہم، فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ ان کے جرمن چانسلر رہتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ہو پائے گا۔

کرسٹوف ہیسلباخ (ر ب/ م ا)