Live Updates

پسماندہ معاشرے اور ان کے حنوط شدہ ہیروز

DW ڈی ڈبلیو اتوار 29 جون 2025 20:20

پسماندہ معاشرے اور ان کے حنوط شدہ ہیروز

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 جون 2025ء) قدیم مصر کی تہذیب میں یہ رواج تھا کہ مردہ فرعون کی لاش کو حنوط کرا کے یعنی ممی بنا کر اس کی اصل شکل و صورت میں رکھا جاتا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسان ایک بار پھر زندہ ہو گا اور اسی دنیا میں زندگی گزارے گا۔ ممی شدہ لاش کو تابوت میں رکھ کر اہرام مصر میں رکھ دیا جاتا تھا۔

یہ ممی شدہ فرعون یا تو اپنے تابوتوں میں رہے یا دنیا بھر کے میوزیمز میں عوام کے لیے نمائش کا باعث رہے۔

مردہ ہیروز کو زندہ رکھنے کی خواہش کا سلسلہ موجودہ دور میں بھی جاری رہا۔ روس کی کمیونسٹ حکومت نے لینن کے مردہ جسم کو ممی بنایا جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ اس رسم کو چین نے اختیار کرتے ہوئے ماؤزے تنگ کے مردہ جسم کو اس کی اصلی حالت میں برقرار رکھا ہے۔

(جاری ہے)

شمالی کوریا کے کم ال سونگ، ویتنام کے ہوچی من کے مردہ جسموں کو بھی حنوط کیا گیا۔

ان لیڈروں کو حنوط شدہ جسم تو باقی ہیں مگر ان میں زندگی کے کوئی آثار نہیں ہیں لیکن ان کے نام سے حکومتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں جبکہ ان کے افکار کو بھلایا جا رہا ہے۔

قوموں کی تاریخ میں ہیروز اپنا کردار ختم کر کے گم ہو جاتے ہیں مگر پھر کسی ضرورت کے تحت ان کو گمنامی سے نکالا جاتا ہے اور ان کے ذریعے زمانہ حال کے مقاصد کو پورا کیا جاتا ہے۔

جب بینیٹو موسولینی اٹلی میں بااقتدار ہوا تو اس نے قدیم رومن شہنشاہ آگسٹس کو ہیرو بنا کر پیش کیا تاکہ رومی سلطنت کی شان و شوکت کو واپس لائے۔ اس نے آگسٹس پر کانفرس بھی کروائیں اور کتابیں بھی لکھوائیں مگر وہ رومی سلطنت کو واپس نہیں لا سکا۔ جب نیپولین سوئم فرانس کا صدر بنا تو اس نے اپنے چچا نیپولین اول کے تابوت کو سینٹ ہیلینا سے لا کر پیرس میں شاندار مقبرے میں دفن کیا۔

اس کا مقصد نیپولین اول کا جانشین ہونا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ ہیروز کو بھی ضرورت پڑنے پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

برصغیر ہندوستان اور پاکستان میں اولیاء کی حیثیت ہیروز سے بھی بڑھ کر ہے۔ کیونکہ یہ روحانی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کے مزار مقدس ہو جاتے ہیں اور سجادہ نشینوں کا خاندان ان کے تعلق سے بااثر رہتا ہے اور مرید ان کے وفادار ہوتے ہیں۔

ان کی مالی امداد کرتے ہیں اور اس کی روحانی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ پاکستان میں یہ سجادہ نشین سیاسی راہنما بھی ہیں۔ سماجی طور پر ان کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ ان کے مرید اس قدر جانثار ہیں کہ ان کے لیے جان دینے کو تیار رہتے ہیں اور ذہنی طور پر ان کے غلام ہیں۔

مذہبی ہیروز کے بعد سیکولر ہیروز کا نمبر آتا ہے۔ ان میں سیاستدان ادیب اور شاعر اور سماجی کارکن ہوتے ہیں۔

کسی بھی شخصیت کو ہیرو بنانے کے لیے خاص صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اولین طور پر اگر کسی ہیرو کی کمزوریوں، بدعنوانی اور خبیث عادتوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس حصے کو مٹا کر اس میں نیکیوں، انسانی ہمدردی اور اس کے علم و فضل کو شامل کرکے اسے عظیم بنا دیا جاتا ہے۔ اس کی تشہیر کے لیے کتابیں لکھوائی جاتی ہیں۔ اس کی یاد میں جلسے ہوتے ہیں اور وہ شخص جو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے بدنام تھا پاک صاف ہو کر ہیرو بن جاتا ہے۔

ہم یہاں قومی ہیروز کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتے اور نہ ہی ان فوجی ہیروز کا جن کے بنانے میں فوج کا حصہ ہے اور نہ ہی ہم ان تاریخی ہیروز کا ذکر کریں گے جو ہندو مسلم تضادات کی صورت میں اُبھرے تھے۔ ہم یہاں یہ کوششیں ضرور کریں گے کہ پاکستان میں مختلف سیاسی اور سماجی جماعتوں نے اپنے اپنے ہیروز بنائے اور ان کو جذباتی طور پر اپنا کر ان کی اصل شکل کو بدل دیا۔

خاص طور سے آمرانہ دور کے ہیروز، 1971 کی جنگ کے بعد کے ہیروز ان سب کو کسی نہ کسی ایک سیاسی جماعت نے اپنا ہیرو بنا کر اس سے ایسا جذباتی تعلق قائم کیا ہے کہ اس پر تنقید کرنا ان کے لیے باعث کفر سمجھا جاتا ہے۔

اب پاکستان کے مختلف صوبوں میں نئے نئے ہیروز پیدا ہو رہے ہیں۔ کوئی قوم پرستی کی نمائندگی کرتا ہے کوئی مذہب کا علمبردار ہے اور کوئی ادب کی دنیا کا شہنشاہ۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کے دانشوروں میں اپنی کوئی صلاحیت باقی نہیں رہتی ہے وہ تقلید کرکے پرانی باتوں کو دہراتے رہتے ہیں اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ جب ان ہیروز کی تعریف کے لیے کوئی الفاظ باقی نہیں رہتے ہیں اور یہ مصر کی ممی شدہ لاشوں کی طرح بے جان ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔

جو دانشور قدیم اور جدید ہیروز کی یادیں مناتے ہیں۔

ان کی تعریف و توصیف کرتے ہیں وہ اس کا ذکر نہیں کرتے کہ ان ہیروز نے معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے کیا کیا تھا۔ کیا ان کے افکار و خیالات میں کوئی جان ہے کہ آج کے معاشرے کو کوئی نئی زندگی دے سکے گی۔

جرمن دانشور برٹولٹ بریشٹ نے کہا تھا کہ بدقسمت ہیں وہ قومیں جنہیں ہیروز کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا مطلب تھا کہ ہیروز کی موجودگی میں معاشرہ اپنا اعتماد کھو دیتا ہے اور پرانے اور افسردہ نظریات کی روشنی میں اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے اس لیے ہیروز کی موجودگی کو تاریخی طور پر تو دیکھنا چاہیے مگر ان کو موجودہ مسائل کا حل نہیں سمجھنا چاہیے۔

یورپ کی تاریخ سے ہم یہ سیکھتے ہیں کہ علم و ادب، افکار و خیالات ایک جگہ ٹھہرے ہوئے نہیں رہتے ہیں۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جب تک ہم حنوط شدہ ہیروز اور دانشوروں کو زندہ سمجھ کر ان کی تقلید کرتے رہیں گے تب تک ہماری ترقی کے سبھی راستے بند رہیں گے۔

ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ تابوتوں میں بند حنوط شدہ ہیروز کے باہر نکلنے کے لیے کوئی امکان نہیں۔

نہ ان کو نئی زندگی ملے گی اور نہ ہی وہ ہماری راہنمائی کر سکیں گے۔ لہٰذا انہیں تابوتوں میں ہی سونے دیں اور اپنے اپنے معاشروں کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات کریں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live ایران اسرائیل کشیدگی سے متعلق تازہ ترین معلومات