افغان حکومت کا پاکستان سے پناہ گزینوں کی ملک بدری شروع نہ کرنے کا مطالبہ

پاکستان اور ایران مجوزہ ملک بدری کو روکیں اور افغانوں کو رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کی اجازت دیں‘ وزیر مہاجرین مولوی عبدالکبیر

بدھ 2 اپریل 2025 18:05

افغان حکومت کا پاکستان سے پناہ گزینوں کی ملک بدری شروع نہ کرنے کا مطالبہ
کابل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 اپریل2025ء)افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) رکھنے والوں کو رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کی مہلت ختم ہونے کے بعد افغانستان میں طالبان کے زیرانتظام نگراں حکومت نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان شہریوں کی ملک بدری کا عمل شروع نہ کیا جائے۔وزارت داخلہ نے 6 مارچ کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’تمام غیر قانونی غیر ملکیوں اور اے سی سی ہولڈرز کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ 31 مارچ 2025 سے پہلے رضاکارانہ طور پر ملک چھوڑ دیں، اس کے بعد یکم اپریل 2025 سے ملک بدری کا عمل شروع ہو جائے گا۔

پاکستان میں یو این ایچ سی آر کے نمائندے فلپ کینڈلر نے کہا ہے کہ پاکستان 15 لاکھ 20 ہزار رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا ہے، ایک اندازے کے مطابق 8 لاکھ افغان شہریت کے حامل افراد اور دیگر افراد سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر ملک میں رہ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

افغان سرکاری خبر رساں ادارے باختر کے مطابق یکم اپریل کو افغان حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے نئے سرے سے کریک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ قانونی رہائشی اجازت نامے کے بغیر افراد کو ملک بدر کرے گا۔

افغانستان کے وزیر برائے مہاجرین اور وطن واپسی مولوی عبدالکبیر نے ہمسایہ ممالک (پاکستان اور ایران) پر زور دیا ہے کہ وہ مجوزہ ملک بدری کو روکیں اور افغانوں کو رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کی اجازت دیں۔انہوں نے پناہ گزینوں کے ساتھ انسانی سلوک کی اہمیت پر زور دیا، خاص طور پر پڑوسی ممالک کی جانب سے افغانوں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاعات کی روشنی میں، جن میں قانونی ویزا رکھنے والے افراد کو بھی ملک بدر کیا گیا تھا۔

خیبر پختونخوا میں سینئر حکام نے وفاقی حکومت کو عید کی تعطیلات کے پیش نظر وطن واپسی کا عمل 10 اپریل تک ملتوی کرنے کی سفارش کی ہے، وزارت داخلہ کی جانب سے اس تجویز کو قبول کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔ لنڈی کوتل میں حکام کی جانب سے قائم کیے گئے پناہ گزین کیمپ اس وقت بند ہیں اور آج دوپہر تک کوئی نقل و حرکت نہیں تھی۔