سعودی عرب 80 لاکھ سال قبل سبز نخلستان تھا، ہیریٹیج کمیشن

نئی تحقیق سے جزیرہ نما عرب میں غاروں کی تجزیے کی بنیاد پر سب سے طویل آب و ہوا کا ریکارڈ سامنے آیا ،رپورٹ

جمعرات 10 اپریل 2025 10:50

ریاض (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 اپریل2025ء)سعودی عرب میں ہیریٹیج کمیشن کے ذریعہ کئے گئے ایک سائنسی مطالعہ میں سعودی عرب میں قدیم آب و ہوا کے درست ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی۔ میڈیارپورٹس کے مطابق اس میں 22 غاروں جنہیں "دحول الصمان" کہا جاتا ہے، کی شکلوں کے تجزیے کے ذریعے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سعودی عرب 8 ملین سال پہلے ایک سبز نخلستان تھا۔

ایس سی ٹی ایچ کے نوادرات کے شعبے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عجب العتیبی نے ریاض میںایس سی ٹی ایچ کے ہیڈکوارٹرز میں منعقد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کہ اس تحقیق سے جزیرہ نما عرب میں غاروں کی تجزیے کی بنیاد پر سب سے طویل آب و ہوا کا ریکارڈ سامنے آیا ہے۔ یہ ریکارڈ دنیا کے سب سے طویل آب و ہوا کے ریکارڈوں میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

یہ آٹھ ملین سال پر محیط ایک بہت طویل عرصے پر محیط ریکارڈ ہے۔

ڈاکٹر عجب العتیبی نے وضاحت کی ہے کہ اس مطالعہ کے نتائج نے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے درمیان جانداروں کے پھیلائو کے لیے جزیرہ نما عرب کی اہمیت کو اجاگر کردیا ہے۔ یہ سٹڈی حیاتیاتی تنوع کی تاریخ اور جزیرہ نما عرب کے تمام براعظموں کے درمیان جانداروں کی نقل و حرکت کو سمجھنے میں معاون ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مطالعہ ان تشریحات کے نتائج کی حمایت کرتا ہے کہ کس طرح موسمیاتی تبدیلی نے تمام عمروں میں انسانی گروہوں کی نقل و حرکت اور پھیلا کو متاثر کیا ہے۔

ہیریٹیج کمیشن نے "گرین عربیہ پروجیکٹ" کی چھتری کے تحت متعدد مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے تعاون سے گزشتہ 8 ملین سالوں میں عرب میں بار بار مرطوب مراحل کے عنوان سے سائنسی جریدے "نیچر" میں ایک سائنسی مضمون شائع کیا ۔ اس کا مقصد خطے کی قدرتی اور ماحولیاتی تاریخ کو تلاش کرنا ہے۔اس تحقیق میں 27 مختلف مقامی اور بین الاقوامی اداروں کے تیس محققین نے حصہ لیا جن میں خاص طور پر ہیریٹیج کمیشن، سعودی جیولوجیکل سروے، کنگ سعود یونیورسٹی، جرمنی میں میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ، آسٹریلیا کی گریفتھ یونیورسٹی اور جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور امریکہ سمیت مختلف ممالک کی متعدد یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز بھی شامل تھے۔

سائنسی مطالعہ نے مملکت میں قدیم آب و ہوا کے درست ریکارڈ کا انکشاف کیا ہے۔ تجزیہ 22 غاروں کی شکلوں کے تجزیے کے ذریعے کیا گیا۔ ۔ یہ غار ریاض کے علاقے کے شمال مشرق میں واقع سات غاروں سے نکالی گئی ہیں جو رماح گورنری میں شاویہ مرکز کے قریب ہیں۔ ان غاروں کو مقامی طور پر "دحول الصمان" کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ ریکارڈ متعدد مرطوب پے در پے مراحل کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان مراحل نے مملکت کی زمینوں کو اس کی موجودہ بنجر فطرت کے برعکس ایک زرخیز اور رہنے کے قابل ماحول بنایا۔ نتائج کے مطابق سعودی عرب کا صحرا جو آج زمین پر سب سے بڑی خشک جغرافیائی رکاوٹوں میں سے ایک ہے افریقہ، ایشیا اور یورپ کے براعظموں کے درمیان جانوروں اور انسانوں کی نقل مکانی کے لیے قدرتی لنک تھا۔محققین نے غار کی تشکیل میں کیمیائی ذخائر کے محتاط تجزیہ کے ذریعے ادوار کا تعین کرنے کے لیے مختلف سائنسی طریقوں کا استعمال کیا۔

اس میں آکسیجن اور کاربن آئسوٹوپس کا تجزیہ کرنا بھی شامل تھا تاکہ وقت کے ساتھ بارش اور پودوں کے احاطہ میں ہونے والی تبدیلیوں کو ظاہر کیا جا سکے۔ اس تجزیے سے بارش کے ادوار اور لاکھوں سالوں میں ان کی نمی کے اتار چڑھاو کو ظاہر کرنے میں مدد ملی۔