پیاسوں تک پانی پہنچاتا غزہ کا گمنام ہیرو ابراہیم علوش

یو این پیر 14 اپریل 2025 01:15

پیاسوں تک پانی پہنچاتا غزہ کا گمنام ہیرو ابراہیم علوش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 14 اپریل 2025ء) ابراہیم علوش جنگ سے تباہ حال غزہ کے گمنام ہیرو ہیں۔ وہ روزانہ اپنے ٹرک پر پانی لے کر مختلف علاقوں میں جاتے اور لوگوں کی پیاس بجھاتے ہیں جبکہ آبی قلت غزہ میں زندگی کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئی ہے۔

بمباری، تباہ حال راستوں اور رسائی و تحفظ کے مسائل کی وجہ سے ان کے لیے یہ کام آسان نہیں ہے لیکن وہ ثابت قدمی سے ہر مشکل کا مقابلہ کرتے ہوئے پیاسے لوگوں کو پانی پہنچا رہے ہیں۔

یو این نیوز کے نمائندے نے گزشتہ دنوں ان کے ساتھ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ کا سفر کیا جہاں وہ ایک پلانٹ سے صاف پانی لینے گئے تھے۔ غزہ میں دیگر کی طرح پانی صاف کرنے کے اس پلانٹ پر بھی لوگوں کا بے حد رش رہتا ہے۔ ابراہیم بتاتے ہیں کہ علاقے میں ہر پلانٹ کو ہر گھنٹے 35 تا 40 لٹر ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے جو غزہ میں تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)

اگر امداد کی فراہمی بحال نہ ہوئی تو پانی کے تمام پلانٹ بند ہو جائیں گے اور غزہ کی 21 لاکھ آبادی کی زندگی خطرے میں ہو گی۔

UN News

طویل انتظار اور مشکل سفر

ابراہیم کو پانی کے پلانٹ پر تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔

یو این نیوز کی ٹیم جب ان کے ساتھ جبالیہ کے پلانٹ پر پہنچی تو انہیں اپنا ٹینکر بھرنے کے لیے پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔

پانی بھرنے کے بعد ابراہیم اپنے پرانے ٹرک میں جا بیٹھتے ہیں اور تباہ شدہ علاقے میں ایک مشکل سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ ملبے کا ڈھیر بنے جبالیہ میں جا بجا لوگ پانی حاصل کرنے کے لیے ان کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کے لیے بعض جگہوں پر پہنچنا ناممکن حد تک مشکل ہوتا ہے لیکن وہ جیسے تیسے ہر جگہ لوگوں کو پانی پہنچاتے ہیں۔

پانی صاف کرنے کے لیے ڈیزل استعمال ہوتا ہے جس کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ایک کیوبک میٹر صاف پانی خریدنے پر 90 تا 100 شیکل ادائیگی کرنا پڑتی ہے جو کہ 20 اردنی دینار کے برابر ہے۔ اسی لیے بیشتر لوگوں کا پانی کے لیے تمام تر انحصار امدادی اداروں اور پانی کی فراہمی سے متعلق امدادی اقدامات پر ہے۔

'پانی نہیں تو زندگی نہیں'

غزہ کے رہائشی ایمان کمال نے یو این نیوز کو بتایا کہ علاقے میں پانی کا بہت بڑا بحران ہے۔

جہاں بعض لوگ نصف دن انتظار کے بعد پانچ یا دس گیلن پانی لینے میں کامیاب رہتے ہیں تو وہیں ایسے بھی ہیں جنہیں خالی ہاتھ واپس جانا پڑتا ہے۔

شمالی غزہ کے رہنے والے فتحی الخلوط نے بتایا کہ پانی کے بغیر کوئی زندگی نہیں۔ لوگ پانی کے لیے طویل انتظار کرتے ہیں اور جب ٹینکر آتا ہے تو اس پر پل پڑتے ہیں۔

ایک اور رہائشی سمیر بدر نے بتایا کہ امداد بند ہو جانے سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے۔

فلسطینیوں کو امید ہےکہ دنیا انہیں اسی نگاہ سے دیکھے گی جس طرح وہ دوسرے ممالک کو دیکھتی ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ جب دیگر ممالک میں سبھی آرام و سکون سے رہتے ہیں تو فلسطینیوں کے لیے ایسے حالات کیوں ہیں؟

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے بچے دن بھر پانی کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ کبھی انہیں اس میں کامیابی ملتی ہے تو کبھی وہ ناکام لوٹتے ہیں۔

UN News

بگڑتا ہوا بحران

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے سرحدی راستے بند ہونے اور ایندھن کی ترسیل پر پابندی کے باعث پانی صاف کرنے کے پلانٹ فعال رکھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

مرکزی پائپ لائنیں بند ہونے سے بھی پینے کے پانی کی دستیابی میں کمی آئی ہے اور علاقے میں پانی کا بحران بگڑتا جا رہا ہے۔

جنگ بندی ختم ہو جانے کے بعد غزہ میں پانی کی تنصیبات کی تعمیرومرمت کا کام بھی ادھورا رہ گیا ہے۔ ان حالات میں پانی کی فراہمی کے متعدد پلانٹ یا تو غیرفعال ہیں یا انہیں مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

یونیسف کے مطابق، چار لاکھ بچوں سمیت تقریباً 10 لاکھ لوگوں کو فی کس روزانہ چھ لٹر صاف پانی میسر ہے جبکہ جنگ بندی کے دوران یہ مقدار 16 لٹر تک پہنچ گئی تھی۔

ادارے نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایندھن ختم ہو گیا تو آئندہ ہفتوں میں لوگوں کو فی کس 4 لٹر پانی ہی دستیاب ہو گا۔ ان حالات میں لاکھوں لوگ غیرمحفوظ اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہوں گے جس سے خاص طور پر بچوں میں بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔