Live Updates

ٹیکس کی ادائیگی میں تنخواہ دار طبقہ سرفہرست، مزید انکم ٹیکس لینے کا ہدف مقرر

رواں مالی سال کے نو مہینوں میں تنخواہ دار طبقے نے 391 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا جو پچھلے پورے مالی سال کی نسبت 23 ارب روپے زیادہ ہے؛ رپورٹ

Sajid Ali ساجد علی بدھ 30 اپریل 2025 11:24

ٹیکس کی ادائیگی میں تنخواہ دار طبقہ سرفہرست، مزید انکم ٹیکس لینے کا ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 30 اپریل 2025ء ) ملک میں ٹیکس کی ادائیگی میں تنخواہ دار طبقہ سرفہرست ہے جس سے مزید انکم ٹیکس لینے کا ہدف مقرر کردیا گیا۔ صحافی شہباز رانا کی رپورٹ کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران ریکارڈ 391 ارب روپے انکم ٹیکس کی مد میں ادا کیے جو کہ پاکستان بھر سے اکٹھے کیے گئے کل انکم ٹیکس کا 10 فیصد بنتا ہے، یہ ایک انتہائی امتیازی ٹیکس نظام ہے جس میں تنخواہ دار افراد پر غیر متناسب بوجھ ڈالا جا رہا ہے، جولائی تا مارچ کے دوران اگر ہر 100 روپے انکم ٹیکس میں سے 10 روپے تنخواہ دار طبقے نے دیئے تو اس کے برعکس منظورِ نظر تاجروں نے محض 60 پیسے دیئے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے عبوری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے نو مہینوں میں تنخواہ دار طبقے نے 391 ارب روپے انکم ٹیکس ادا کیا جو پچھلے پورے مالی سال کی نسبت 23 ارب روپے زیادہ ہے، ان نو مہینوں میں ایف بی آر نے کل 4.1 ٹریلین روپے انکم ٹیکس جمع کیا، اس میں سے تقریباً 10 فیصد صرف تنخواہ دار افراد نے ادا کیے جو کہ اس خاموش اور کمزور طبقے پر غیر منصفانہ بوجھ کی واضح مثال ہے، گزشتہ سال یہ تناسب 7.5 فیصد تھا، وزیرِاعظم شہباز شریف کی حکومت نے مالی سال 2024/25ء کے لیے تنخواہ دار طبقے سے مزید 75 ارب روپے انکم ٹیکس لینے کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اب تک اس مد میں 140 ارب روپے سے زائد جمع ہو چکے ہیں اور ابھی مالی سال کے تین مہینے باقی ہیں، یہ گزشتہ سال کی نسبت 56 فیصد اضافہ ہے، گزشتہ سال تنخواہ دار طبقے نے 368 ارب روپے ٹیکس دیا تھا لیکن اس بھاری بوجھ کے باوجود جہاں ان کی مجموعی آمدنی پر اخراجات کی رعایت کے بغیر ٹیکس لاگو ہوتا ہے حکومت نے آئی ایم ایف سے حالیہ مذاکرات میں ان کا بوجھ کم کرنے کا کوئی معاملہ نہیں اٹھایا۔

(جاری ہے)

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر نجیب میمن کا کہنا ہے کہ ’ہم ایسا متبادل نظام لانے پر غور کر رہے ہیں جس سے تنخواہ دار طبقے کا بوجھ کم ہو، مگر ٹیکس نظام کی ترقی پسندی متاثر نہ ہو‘ تاہم ذرائع نے بتایا کہ ’ آئی ایم ایف کی ٹیم 14 مئی کو پاکستان پہنچے گی تاکہ نئے مالی سال کے بجٹ کا جائزہ لے سکے،جو غالباً 4 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، ٹیم 23 مئی تک قیام کرے گی، تنخواہ دار طبقے سے زیادہ ٹیکس وصولی حکومت کو آئندہ مالی سال میں ٹیکس شرحوں میں نمایاں کمی سے روک سکتی ہے کیوں کہ اس کا ریونیو پر بڑا اثر پڑے گا۔

بتایا جارہا ہے کہ اس کے برعکس تاجر برادری نے صرف 26 ارب روپے ادا کیے جو کہ خریداری پر عائد ودہولڈنگ انکم ٹیکس ہے، تاجروں کی طرف سے سیکشن 236H کے تحت ادا کردہ ٹیکس، تنخواہ داروں کے مقابلے میں 1,420 فیصد کم ہے، یعنی ہر 10 روپے جو تنخواہ دار طبقہ دیتا ہے، اس کے مقابلے میں تاجر صرف 60 پیسے دیتے ہیں، اس کے علاوہ، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز نے 17.5 ارب روپے ٹیکس دیا، جن میں سے تقریباً آدھے ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ نہیں تھے، وزیرِاعظم شہباز شریف تاجروں سے واجب الادا ٹیکس لینے کے وعدے پر عمل نہیں کر سکے اب آئی ایم ایف پاکستان سے مطالبہ کر سکتا ہے کہ وہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس میں کمی کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے کوئی معتبر مالی متبادل پیش کرے۔

گزشتہ بجٹ میں حکومت نے تاجروں پر 2.5 فیصد ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کیا تھا تاکہ وہ ٹیکس نیٹ میں آئیں جس سے اگرچہ 13.3 ارب روپے اضافی حاصل ہوئے، لیکن اصل مقصد حاصل نہ ہو سکا، کیونکہ تاجروں نے اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیا، جون 2023 ءمیں حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ کافی بڑھا دیا ٹیکس سلیبز کی تعداد کم کر دی گئی جس سے درمیانے اور اوپر درمیانے طبقے سب سے زیادہ متاثر ہوئے، اب جو افراد ماہانہ 4لاکھ 43ہزار روپے کماتے ہیں ان پر 35 فیصد ٹیکس لاگو ہوتا ہے، اس کے علاوہ 10 فیصد سرچارج بھی ہے جس سے کل ٹیکس شرح 38.5 فیصد ہو گئی ہے۔

رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ نان کارپوریٹ سیکٹر کے ملازمین نے اس سال 166 ارب روپے انکم ٹیکس دیا جو 43 فیصد یا 50 ارب روپے زیادہ ہے، کارپوریٹ ملازمین نے 117 ارب روپے ٹیکس دیا جو 52 فیصد یا 40 ارب روپے کا اضافہ ہے، صوبائی حکومتوں کے ملازمین نے 69 ارب روپے ٹیکس دیا جو 103 فیصد اضافہ ہے، وفاقی سرکاری ملازمین نے 39 ارب روپے دیا یہ 65 فیصد اضافہ ہے، رواں مالی سال کے لیے آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو 12.97 ٹریلین روپے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف دیا تھا مگر اب تک 714 ارب روپے کی کمی ہو چکی ہے، آئی ایم ایف نے یہ ہدف کم کر کے 12.3 ٹریلین روپے کر دیا ہے، مگر ایف بی آر کے اندرونی تخمینے کے مطابق آمدن 11.7 ٹریلین روپے تک محدود رہنے کا امکان ہے حالاں کہ حکومت نے بجٹ میں 1.3 ٹریلین روپے کے اضافی ٹیکس نافذ کیے تھے، اس معاملے پر ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ معاشی ترقی کی رفتار اور مہنگائی اندازوں سے کم رہی، جس کی وجہ سے ٹیکس وصولی متاثر ہوئی۔

Live پہلگام حملہ سے متعلق تازہ ترین معلومات