یونیورسٹی آف بلوچستان: لاکھوں روپے فیسوں میں اضافے کے باوجود تعلیمی سرگرمیاں مفلوج، کلاسز، ٹرانسپورٹ اور ہاسٹلز بند

پیر 14 اپریل 2025 22:40

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 اپریل2025ء) یونیورسٹی آف بلوچستان میں پڑھائی، لائبریری، ریسرچ، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ کی مد میں فیسوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ کیے جانے کے باوجود نئے سمسٹرز کی کلاسز تک شروع نہیں ہو سکیں۔ ڈپارٹمنٹس اور کلاسز کو تالے لگے ہوئے ہیں جبکہ ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ سروس بھی تاحال بند ہیں۔ وائس چانسلر اور رجسٹرار کی طرف سے سست روی، طلبہ کے مطابق، تعلیم دشمنی اور طلبہ دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔

طلبہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ حالیہ ایچ او ڈیز میٹنگ، جو وائس چانسلر کی صدارت میں منعقد ہوئی، اس میں نہ ہاسٹلز کھولنے اور نہ ہی ٹرانسپورٹ بحال کرنے سے متعلق کوئی فیصلہ سامنے آیا حالانکہ کوئٹہ شہر میں تمام سکولز، کالجز مکمل فعال ہیں۔

(جاری ہے)

طلبہ نے سوال اٹھایا کہ جب کلاسز نہیں ہونگے تو بھاری بھرکم فیس کیوں ہم دی؛ اس سے تو بہتر ہے کہ کالجز میں بی ایس ڈگریز میں داخلے لیں کیونکہ کم فیس میں مکمل ڈگری ملے گی۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ صوبے کی عظیم مادر علمی کو جس منصوبہ بندی سے تباہی کے دہانے پر پہنچایا جا رہا ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ماضی قریب میں جہاں ہزاروں طلبہ و طالبات بی ایس پروگرامز میں تعلیم حاصل کرتے تھے اور سینکڑوں ریسرچرز ایم فل و پی ایچ ڈی ڈگریاں مکمل کرتے تھے، آج وہی ادارہ اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ متعدد ڈپارٹمنٹس میں داخلے بھی ممکن نہیں ہو سکے، جو یونیورسٹی کی مجموعی صورتحال اور مورال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

طلبہ نے عدالت عالیہ، یونیورسٹی کے چانسلر و گورنر بلوچستان جناب شیخ جعفر خان مندوخیل اور وزیر اعلی بلوچستان جناب سرفراز بگٹی سے مطالبہ کیا ہے کہ اس تمام صورتحال کی فوری انکوائری کروائی جائے اور یونیورسٹی کو اس نہج پر پہنچانے والوں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے۔