انکم ٹیکس میں کمپنیوں اور ریموٹ ورکرز میں برابری اور 10 سال کے لیئے فکسڈ ٹیکس رجیم لاگو کی جائے، سجاد مصطفی سید

بدھ 16 اپریل 2025 18:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2025ء) پاکستان سافٹ ویئر ہاسز ایسوسی ایشن کے چیئرمین، سجاد مصطفی سید نے کہا ہے کہ آئی ٹی کمپنیوں اور برآمد کنندگان کے ساتھ وسیع البنیاد اور ایک جاری مشاورتی عمل کی بنیاد پر، P@SHA حتمی ٹیکس نظام (ایف ٹی آر)کو جاری رکھنے کا مطالبہ کرتی ہی؛ آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی خدمات (آئی ٹی ای ایس)کمپنیوں پر لاگو کی جائی؛ بصورت دیگر ایف ٹی آر 30 جون 2026 کو ختم ہونے والی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ P@SHA نے وفاقی بجٹ 2025-26 کے لیے اپنی تفصیلی بجٹ تجاویز اور دیگر اہم پالیسی سفارشات متعلقہ وزارتوں اور ان کے تحت کام کرنے والے اداروں کو ایف ڈی آئی، آئی ٹی انڈسٹری ڈویلپمنٹ، ایکسپورٹ گروتھ اور روزگار پیدا کرنے کے کلیدی مقاصد کے طور پر پیش کی ہیں۔

(جاری ہے)

ایف ٹی آر پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ (پی ایس ای بی) کے ساتھ رجسٹرڈ اداروں کے لئے برآمدی آمدنی پر مقررہ تاریخ تک رجسڑڈ کمپنیوں کو 0.25 فیصد کے کم ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس لیے ایف ٹی آر کا تسلسل آئی ٹی صنعت میں برآمدی نمو اور سرمایہ کاری کی رفتار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ P@SHA چیف نے وضاحت کی کہ آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس برآمدات کے لئے حتمی ٹیکس نظام (ایف ٹی آر)کو اگلے 10 سالوں کے لئے بحال کیا جانا چاہئی؛ یعنی کہ 2025-2035 تا کہ پالیسی تسلسل اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو یقینی بنایا جا سکی؛ کیونکہ آئی ٹی انڈسٹری اس وقت بڑی سرمایہ کاری کو اپنی طرف راغب کر رہی ہے، آپریشنل توسیع کا مشاہدہ کر رہی ہے اور برآمدی منڈیوں میں علاقائی تنوع حاصل کر رہی ہے۔

سجاد مصطفی سید نے زور دے کر کہا کہ ایف ٹی آر کے تسلسل سے آئی ٹی فرموں کے لیے ٹیکس کے ڈھانچے کو آسان بنانا ممکن ہو گا اور برآمد کنندگان کو کاروبار کی توسیع اور تکنیکی جدت طرازی کے لیے مزید آمدنی برقرار رکھنے کی اجازت دے کر دوبارہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی۔مزید برآں ، ٹیکس مراعات فراہم کرنا اور ان کی پالیسی کی سطح کی مستقل مزاجی کو یقینی بنانا آئی ٹی/آئی ٹی ای ایس صنعت کے لیے سازگار کاروباری ماحول پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔

چیئرمین P@SHA نے وضاحت کی کہ آئی ٹی اور آئی ٹی ای ایس برآمدات کے لیے ایف ٹی آر کی بحالی پاکستان کو علاقائی حریفوں کے ساتھ ہم آہنگ کرتی ہی؛ جو کہ اپنے ممالک میں ایف ڈی آئی کو راغب کرنے کے لیے طویل مدتی ٹیکس مراعات کی پیش کش کرتے ہیں۔ عالمی مسابقت کو برقرار رکھنے ، برآمدات میں اضافہ کرنے اور روزگار پیدا کرنے کے لیے آئی ٹی سیکٹر کو استحکام اور مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔

10 سالہ ٹیکس چھوٹ ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کرے گی، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو فروغ دے گی اور پاکستان کو ایک اہم آئی ٹی مرکز کے طور پر قائم کرے گی-خصوصی سرمایہ کاری کی سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)کے مقاصد اور آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے برآمدی نمو کے وزیر اعظم کے وژن کے مطابق کام ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہ دار ملازمین جو 5 سے 35 فیصد کے درمیان انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں اور ریموٹ ورکرزجو کہ صرف 0.25 فیصد سے 1 فیصد ادا کرتے ہیںکے درمیان ٹیکس میں عدم مساوات ٹیلنٹ ہجرت ، برین ڈرین اور اس کے نتیجے میں مقامی کمپنیوں کے لئے چیلنجز کا باعث بنتی ہے۔

ہنر مند آئی ٹی اور ٹیک پیشہ ور افراد کو برقرار رکھنے میں یہ مساوات لانا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک کو آئی ٹی صنعت کی مکمل صلاحیت کو کھولنے کے لیے آئی ٹی کمپنیوں میں تنخواہ دار افراد پر انکم ٹیکس کی شرحوں کو مکمل طور پر کم کرنے کی ضرورت ہے۔ P@SHA کی کلیدی سفارشات میں سے ایک موجودہ انکم ٹیکس آرڈیننس ITO 2001 کے تحت غیر ملکی زرمبادلہ کی وطن واپسی کی حوصلہ افزائی اور اسے ممکن بنانے سے متعلق ہے۔

پاکستان میں فراہم کردہ خدمات کے لئے غیر رہائشیوں کو کی جانے والی ادائیگیاں غیر منصفانہ ود ہولڈنگ ٹیکس (WHT) کے تابع ہیں۔ اس طرح کے قابل اطلاق ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرحیں ادائیگی کی نوعیت اور پاکستان اور وصول کنندہ کے ملک کے درمیان ڈبل ٹیکسیشن معاہدوں ڈی ٹی اے کے وجود کے لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، پاکستان میں مستقل اسٹیبلشمنٹ کے بغیر غیر رہائشیوں کو ادا کی جانے والی رائلٹی اور تکنیکی خدمات کی فیس 15 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس کے تابع ہیں۔

لہذا، یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ فراہم کی جانے والی خدمات کے لیے ایکسپورٹرز اسپیشل فارن کرنسی اکانٹس ای ایس ایف سی اے سے کی جانے والی ادائیگیوں کو ڈبلیو ایچ ٹی سے مستثنی قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ چھوٹ فراہم کردہ آئی ٹی خدمات کے تمام زمروں پر لاگو ہوگی؛ اور، پاکستان میں فنڈز کی انورڈ واپسی کی بھی حوصلہ افزائی کرے گی ۔