لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اپریل2025ء) قصور ڈانس پارٹی کیس میں ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے تحقیقاتی رپورٹ لاہور ہائیکورٹ میں پیش کردی جس کے مطابق ایس ایچ او اور 2 کانسٹیبل قصور وار پائے گئے، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ کسی پولیس افسر نے زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کیا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہوگا، عدالت نے آئندہ سماعت پر پولیس سے سوشل میڈیا پالیسی بھی طلب کر لی۔
ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز اور ڈی آئی جی سکیورٹی عدالت میں پیش ہوئے۔ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نیتحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کردی، رپورٹ کے مطابق ایس ایچ او اور دو کانسٹیبل اس سارے معاملے میں قصوروارپائے گئے۔
(جاری ہے)
جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر پولیس کو اپنی مثبت امیجنگ کرنی ہے پھر بھی کسی کو گنجا کرنا اور خواتین کی ویڈیو بنانا درست نہیں، اگر کوئی شخص دو سال بعد عدالت سے بری ہو جائے تو اس کے میڈیا ٹرائل کا کیا بنے گا ۔دوران سماعت عدالتی استفسار پر کورٹ رپورٹر محمد اشفاق نے عدالت کو بتایا کہ مین اسٹریم میڈیا زیر حراست ملزمان کے انٹرویو نہیں کرتا، پولیس خود انٹرویو کرواتی ہے جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر آئندہ آپ کے کسی پولیس افسر نے زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کیا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہوگا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ قانون کے مطابق انڈر کسٹڈی ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا، آج کے بعد اگر کسی تھانیدار نے اس طرح کا انٹرویو میڈیا کو کرایا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہو گا۔عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی تھانے میں کسی کو گنجا کیا گیا، ایکسپوز کیا گیا یا ملزمان کی تذلیل کی گئی تو متعلقہ پولیس آفیسر کے پورٹ فولیو میں لکھا جائے گا کہ اس نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
جسٹس علی ضیائباجوہ نے مزید کہا کہ لوگوں کی ٹنڈیں کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی، یہ قانون کے منافی ہے۔ پری میچور اس طرح کی ویڈیو جاری ہونے سے ملزم اور مدعی دونوں کا کیس خراب ہوتا ہے۔پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سینئر صحافی اور کورٹ رپورٹرز کے صدر محمد اشفاق کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھا۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے اشفاق سے سوال کیا کہ یہ ملزمان کے انٹرویوز کیسے ہوتے ہیں محمد اشفاق نے جواب دیا کہ یہ انٹرویوز پولیس ہی کرواتی ہے اور زیادہ تر یوٹیوب چینلز ایسے انٹرویوز کرتے ہیں جب کہ کچھ چینلز کے علاوہ مین اسٹریم میڈیا ایسے انٹرویوز نہیں کرتا۔
ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 14شہریوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست کے دائر ہونے سے پہلے ہی مریم نواز نے قصور واقعہ کا نوٹس لے لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔
ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے سوال کیا کہ رپورٹ کے نتائج کیا ہیں جس پر بتایا گیا کہ ایس ایچ او اور دو کانسٹیبل اس سارے معاملے میں قصوروار پائے گئے ہیں۔عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ پولیس کی سوشل میڈیا پالیسی کو سپروائز کریں اور اس حوالے سے پولیس کو گائیڈ لائنز دیں۔
عدالت نے ایڈیشنل آئی جی کو بھی میڈیا کو انٹرویو دینے سے متعلق گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ہدایت کی۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے ریمارکس دیئیکہ کوئی خاتون کیمرہ اٹھا کر پولیس اسٹیشن چلی جاتی ہے، اس کے تھب نیل ایسے ہوتے ہیں کہ انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر وہ کانٹینٹ نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا رویہ اور انٹرویوز پراسیکیوشن کے کیس کو خراب کرتے ہیں۔
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سب سے پہلے اس طرح کے انٹرویوز اور ویڈیوز کا نقصان پراسیکیوشن کو ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج کل آفیشلز زیادہ لائکس لینے اور منافع کمانے کے لیے پیجز وغیرہ بناتے ہیں۔پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ ہم ایڈووکیٹ جنرل آفس، پراسیکیوٹر جنرل آفس اور پولیس مل کر قانون سازی کے لیے تیار ہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ قصور واقعے کے وقت تھانے میں جب ویڈیو بنی تو کیا ایس ایچ او تھانے میں موجود تھا ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے بتایا کہ جی بالکل، ایس ایچ او تھانے میں موجود تھا۔ جس پر جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ اس سے زیادہ ادارے کی تذلیل کیا ہو سکتی ہے، اور حیرانی ہے کہ وہ آزاد پھر رہا ہے۔جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ویڈیو بنانے والے پولیس افسران پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
عدالت نے متعلقہ ایس ایچ او سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ "آپ لوگوں کے منہ پر فلیش لائٹ مار رہے تھی ۔ایس ایچ او نے موقف اختیار کیا کہ وہ صرف پولیس ریکارڈ کے لیے تھا۔اس پر عدالت نے سخت ردعمل دیتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کونسا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ پولیس ریکارڈ کے لیے ایسی ویڈیو بنائیں آپ میں اتنی جرات کیسے آئی ۔دورانِ سماعت ایس ایچ او کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ قصور ڈانس پارٹی دراصل ڈی پی او کا پرسنل سٹاف آفیسر (پی ایس او) کروا رہا تھا، اور اس حوالے سے ان کے پاس ایک کال بھی موجود ہے۔
اس بات کی تصدیق ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے بھی کی، جنہوں نے بتایا کہ پی ایس او نے پیغام دیا تھا کہ کچھ لوگ برتھ ڈے پارٹی منانے آ رہے ہیں۔ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ نے عدالت کو بتایا کہ پی ایس او اور دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنی سوشل میڈیا پالیسی عدالت میں جمع کروائیں۔ مزید سماعت 25اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔