پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے والے لوگ انتہائی کم کیوں؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 18 اپریل 2025 20:00

پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے والے لوگ انتہائی کم کیوں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اپریل 2025ء) ماہرین کے مطابق، رجسٹریشن کی کم تعداد کی بنیادی وجہ حکومت کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے کے پروگرام میں عوام کو شامل کرنے کی ترغیب کے لیے آگاہی مہم اور بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے۔

بعض رپورٹس کے مطابق، روزانہ تقریباً 10 سے 15 افراد اعضا کی پیوند کاری نہ ہونے اور عطیہ دہندگان کی عدم دستیابی کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اگرچہ حکومت نے اس سلسلے میں مذہبی تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے قوانین بنائے ہیں جو زندگی اور وفات کے بعد اعضا عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، تاہم وہ عوام میں اس اہم موضوع پر شعور بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے، بالخصوص وفات کے بعد اعضا عطیہ کرنے کے معاملے میں لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے۔

(جاری ہے)

وفات کے بعد اعضا عطیہ کرنے کا کیا طریقہ کار ہے؟

پاکستان میں انسانی اعضا اور بافتوں کی پیوند کاری کو ریگولیٹ کرنے والا وفاقی ادارہ 'ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ اتھارٹی‘ ہے۔

یہ ادارہ پیوند کاری کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتا ہے۔ ابتدائی طور پر اس کا دائرہ کار پورا ملک تھا، لیکن اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد اس کی حدود صرف وفاقی علاقے تک محدود ہو گئی ہیں، البتہ یہ صوبوں کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے لیے رابطے میں رہتا ہے۔

یہ ادارہ نہ صرف پیوند کاری کی سرگرمیوں کو منظم کرنے کا ذمہ دار ہے بلکہ وفات کے بعد اعضا عطیہ کرنے کی رجسٹریشن کے لیے ایک پلیٹ فارم بھی مہیا کرتا ہے۔

اس اتھارٹی کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر فضلِ مولا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس وقت صرف 15 افراد نے اپنی وفات کے بعد اعضا عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن کرائی ہے، جن میں صدر آصف علی زرداریبھی شامل ہیں جنہوں نے اپنی آنکھیں، گردے اور جگر عطیہ کرنے کا عہد کیا ہے۔

ایک مرتا ہوا انسان سترہ انسانوں کو زندگی دے سکتا ہے

پاکستان میں جسمانی اعضا کا ٹرانسپلانٹ اتنا مشکل کیوں؟

ڈاکٹر فضل مولا نے بتایا کہ انسانی اعضا کی پیوند کاری کا قانون 2010ء میں منظور کیا گیا تھا جس میں بعد میں 2014ء میں ترمیم کی گئی۔

ترمیم شدہ قانون میں اعضا عطیہ کرنے والوں کو خصوصی شناختی کارڈ جاری کرنے کی سہولت بھی دی گئی ہے، جس پر عطیہ دہندگان کی رابطہ تفصیلات درج ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجویز بھی دی گئی تھی کہ اعضا عطیہ کرنے والوں کو مراعات فراہم کی جانا چاہییں، جن کا تعین پالیسی ساز کر سکتے ہیں۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ انسانی اعضا کی پیوند کاری کو منظم کرنے کے لیے ایک بااختیار ادارہ موجود ہے، تاہم مستقل سربراہ کی تقرری نہ ہونے کے باعث یہ ادارہ زیادہ فعال نہیں رہا۔

ڈاکٹر فضلِ مولا نے بتایا، ''ہم نے 2014ء میں فیصلہ کیا تھا کہ عوام کو اعضا کے عطیہ کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے ایک مہم چلائی جائے گی، لیکن اب 11 سال گزر چکے ہیں اور اب ہم آخرکار اس موضوع پر عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب اور سندھ اس میدان میں نسبتاً زیادہ مؤثر رہے ہیں، لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے: ''اب ہم اس مقصد کے لیے ایک مؤثر ڈیٹا بیس ایپلیکیشن تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی روابط استوار ہونے چاہییں۔

‘‘

زندہ لوگ بھی اعضا عطیہ کر سکتے ہیں؟

قانون میں نہ صرف مرنے کے بعد اعضا کے عطیے کی اجازت دی گئی ہے بلکہ ''انسانی اعضا کی پیوند کاری کا قانون‘‘ زندہ افراد کو بھی اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قانون کے مطابق، مریضوں کے رشتے دار اور رضاکار اعضا عطیہ کر سکتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی صورت میں تجارتی سرگرمی نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان غیر قانونی طور پر اعضا کی خرید و فروخت کے حوالے سے کافی بدنام بھی رہا ہے۔

ڈاکٹر فضل نے بتایا، ''غیر قانونی تجارت پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے جس کی وجہ سے اعضا کی دستیابی میں کمی واقع ہوئی ہے، لیکن یہ قدم ضروری تھا۔ اب ہر اس اسپتال میں جہاں اعضا کی پیوند کاری کی سہولت موجود ہے، ایک کمیٹی بنانا لازمی ہے جو رضاکار عطیہ دہندہ کی اصل حیثیت کی جانچ پڑتال کرتی ہے، اور رضاکار سے اعضا کی پیوند کاری صرف انسانی اعضا کی پیوند کاری اتھارٹی کی منظوری کے بعد ہی ممکن ہے۔

‘‘

کیا مذہبی حلقے اعضا کی پیوند کاری جائز قرار دیتے ہیں؟

حال ہی میں کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام اعضا کی پیوند کاری پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اعضا عطیہ کرنے والوں کی کم تعداد کی ایک بڑی وجہ مذہبی اور ثقافتی غلط فہمیاں ہیں۔ پاکستانی نژاد امریکی ماہرِ پیوند کاری ڈاکٹر محمد منصور محی الدین نے بحران کی سنگینی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر فضل نے تسلیم کیا کہ عوام میں آگاہی کے لیے کوئی مؤثر مہم نہ چلانا حکومت کی سطح پر ایک ناکامی ہے: ''اعضا کی پیوند کاری مذہبی بنیادوں پر ممنوع نہیں ہے، اور یہ قانون وفاقی شرعی عدالت کے ایک تفصیلی فیصلے کے بعد نافذ کیا گیا۔ بعض علما انفرادی حیثیت میں اس کی مخالفت کرتے ہیں، لیکن ایک باقاعدہ آگاہی مہم کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔‘‘