ایک لاکھ سرکاری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑنے کا انکشاف

وفاقی حکومت کے ایک اقدام نے مختلف وزارتوں اور اداروں میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین میں شدید تشویش پیدا کردی، 34 ہزار سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران بھی شامل

Sajid Ali ساجد علی منگل 22 اپریل 2025 12:00

ایک لاکھ سرکاری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑنے کا انکشاف
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 اپریل 2025ء ) وفاقی حکومت کے ایک اقدام کی بدولت ایک لاکھ سرکاری ملازمین کی نوکریاں خطرے میں پڑنے کا انکشاف ہوگیا۔ صحافی فخردارنی نے رپورٹ کیا ہے کہ وفاقی کابینہ کی ریگولرائزیشن کمیٹی کے ذریعے مستقل کیے گئے ایک لاکھ سے زائد سرکاری ملازمین کی ملازمتیں خطرے میں ہیں، ان میں 34 ہزار سے زائد گریڈ 16 یا اس سے اوپر کے افسران بھی شامل ہیں، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس کے تحت ان تمام کیسز کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو بھیجا جائے گا، سپریم کورٹ کے ایک مبینہ فیصلے کی بنیاد پر کیے گئے اس اقدام نے مختلف وزارتوں اور اداروں میں طویل عرصے سے خدمات انجام دینے والے ملازمین میں شدید تشویش پیدا کردی۔

بتایا گیا ہے کہ ان ملازمین میں ہزاروں ماہر تکنیکی پیشہ ور شامل ہیں جن میں کنسلٹنٹ ڈاکٹرز (جنرل سرجن، کارڈیک سرجن، پلاسٹک سرجن، ڈینٹل سرجن، پبلک ہیلتھ اسپیشلسٹ، میڈیکل اسپیشلسٹ/فزیشن، گائناکالوجسٹ، پیڈیاٹریشن) اور نرسز شامل ہیں جنہوں نے کورونا وباء اور دہشت گردی جیسے قومی بحرانوں کے دوران خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ پروفیسرز، لیکچررز، اساتذہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئرز اور دیگر افسران بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 19 مارچ 2025ء کو جاری کردہ اپنے دفتر کے یادداشت نمبر 1/29/20-Lit-III کے ذریعے ہدایت کی ہے کہ ریگولر ملازمین کے کیسز فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو بھیجے جائیں، یہ ہدایت سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایک تشریح کی بنیاد پر دی گئی ہے جن سے متاثر ہونے والوں میں وہ ملازمین ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے اور جنہیں گزشتہ حکومت کی پالیسیوں کے تحت مستقل کیا گیا اور اب وہ اپنی سروس کا ایک بڑا حصہ بھی مکمل کر چکے ہیں۔

اس حوالے سے ملازمین کا مؤقف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جاری کردہ یادداشت میں ایک اہم قانونی سقم موجود ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ تمام اداروں پر ماضی کے اثرات کے ساتھ لاگو نہیں ہو سکتا، خصوصاً ان اداروں پر جو اس کیس میں فریق ہی نہیں تھے، مزید برآں ہر ادارے کی نوعیت اور صورتحال مختلف ہے اس لیے اس فیصلے کو تمام پر یکساں لاگو نہیں کیا جا سکتا، ہمیں ابتدائی طور پر 1996ء سے مختلف وزارتوں اور ان کے منسلک اداروں میں کنٹریکٹ پر رکھا گیا جہاں باقاعدہ تحریری امتحانات، انٹرویوز اور وزارتوں کی سفارشات کے بعد ہمیں بھرتی کیا گیا، بعد ازاں وزیراعظم پاکستان کی منظوری سے کابینہ کمیٹی کے ذریعے ہمیں ریگولرائز کیا گیا۔

ملازمین کا کہنا ہے کہ ہم میں سے بہت سے افراد دو دہائیوں سے زائد عرصہ قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں، ہماری ایک بڑی تعداد 45 سے 55 سال کی عمر کے درمیان ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال سرکاری ملازمت کے لیے وقف کر دیئے، اب ہمیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے نئے امتحانات اور انٹرویوز کے لیے بھیجنا عملی طور پر ہماری نوکری ختم کرنے کے مترادف ہے۔