شہریوں کے ڈیٹا کاتحفظ، معیاری قوانین اور مربوط پالیسی فریم ورک کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے، آئی ٹی ماہرین

بدھ 23 اپریل 2025 23:26

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 اپریل2025ء) آئی ٹی ماہرین نے انتباہ کیا ہے کہ اگر پاکستان نے ڈیٹا گورننس کے شعبہ میں فوری اور جامع اصلاحات نہ کیں تو ملکی ڈیجیٹل مستقبل خطرات کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیرِ اہتمام پاکستان میں ڈیٹا گورننس پر عوامی و نجی مکالمہ کے دوران کیا ۔

مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ ڈیجیٹل ترقی کی دوڑ میں شہریوں کے ڈیٹا کے تحفظ، معیاری قوانین اور مربوط پالیسی فریم ورک کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔بدھ کو ایس ڈی پی آئی سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اپنے افتتاحی کلمات میں ایس ڈی پی آئی کے سربراہ ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ ڈیٹا اب دولت اور طاقت کا نیا مترادف بن چکا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہم ڈیجیٹلائزیشن کی دوڑ میں ڈیٹا کے تحفظ کے بنیادی پہلوئوں کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

انہوں نے مالیاتی ڈیٹا میں حالیہ دراندازیوں کی مثالیں دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر ضروری احتیاطی اقدامات نہ کئے گئے توبنگلہ دیش کے مرکزی بینک کی ہیکنگ کی طرح پاکستان کو بھی ایسا سانحہ پیش آ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل گورننس کا عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل کرنے کی صلاحیت اور ابتدائی قانونی ڈھانچہ موجود ہے مگر ضروری ہے کہ ہم فوری اقدامات کرتے ہوئے اپنے قوانین کو ہم آہنگ کریں، شہریوں کے ڈیٹا کا تحفظ یقینی بنائیں اور معلومات تک منصفانہ رسائی کو فروغ دیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایس ڈی پی آئی آئندہ بھی ایسے مکالمے منعقد کرتا رہے گا تاکہ ایک محفوظ اور جامع ڈیجیٹل پاکستان کے لئے موثر پالیسی اصلاحات کی راہ ہموار ہو سکے۔ایس ڈی پی آئی کے سینئر مشیر بریگیڈیئر (ر) محمد یاسین نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں زور دیا کہ یہ نشست معاشی نمو، عوامی اعتماد اور عالمی تعاون کے لئے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدلتے ہوئے ڈیجیٹل منظرنامہ کے مطابق قوانین میں مسلسل بہتری ناگزیر ہے۔تقریب کے مہمانِ خصوصی اور وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کے رکنِ قانونی امور اکرام الحق قریشی نے کہا کہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کام شزا فاطمہ خواجہ کی قیادت میں وزارت نے ڈیٹا تحفظ کا مجوزہ قانون تیار کر لیا ہے جسے جلد قانون سازی کیلئے پیش کر دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ کے تحت ایک قومی ڈیٹا گورننس اتھارٹی قائم کی جائے گی جو حکومت، کاروباری اداروں اور شہریوں کے مابین محفوظ ڈیٹا شیئرنگ کو ممکن بنائے گی۔اجلاس کی نظامت کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کی زینب نعیم نے دنیا بھر میں ذمہ دار ڈیٹا گورننس کے بڑھتے ہوئے رجحان اور ڈیجیٹل حقوق کی بڑھتی ہوئی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

لرن ایشیا کے اسلم حیات نے ڈیٹا فار ڈیولپمنٹ ایشیا مطالعہ کی روشنی میں پاکستان کی ڈیٹا پالیسی کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ڈیٹا کے معیاری ضوابط کی عدم موجودگی، قومی سطح پر ڈیٹا شیئرنگ پلیٹ فارم کے فقدان اور دستیاب ڈیٹا بیسز کے غیر موثر استعمال کے مسائل موجود ہیں۔ لرن ایشیا ہی سے تعلق رکھنے والے پرانیش پراکاش نے حقِ رازداری کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ردعمل پر مبنی شفافیت کی بجائے فعال اور پیشگی شفافیت کی طرف بڑھنا ہوگا۔

نادرا سے وابستہ پینلسٹ بریگیڈیئر ڈاکٹر محسن اخلاق نے مقامی سطح پر سائبر سکیورٹی کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالی اور عوامی و نجی اداروں کی جانب سے بغیر ضابطہ ڈیٹا کے استعمال اور بار بار ڈیٹا جمع کرنے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے سائبر ویجیلنس ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر مکرم خان نے کہا کہ نادرا اور پی ٹی اے جیسے اداروں کے درمیان مزید ہم آہنگی ناگزیر ہے۔

بین الاقوامی آئی سی ٹی مشیر پرویز افتخار نے صوبائی و وفاقی حکومتوں کی ڈیجیٹل پالیسیوں میں ربط کے فقدان کو اجاگر کرتے ہوئے ایک مربوط قومی حکمتِ عملی کی ضرورت پر زور دیا۔وزارتِ آئی ٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے اسفند یار خان نے بتایا کہ وزارتِ آئی ٹی عالمی بینک کے تعاون سے ایک مضبوط ڈیٹا گورننس نظام کی بنیاد رکھنے کے لئے کام کر رہی ہے۔