دنیا میں 120 مقامات جنگ زدہ جبکہ سلامتی کونسل قیام امن میں ناکام، گرینڈی

یو این منگل 29 اپریل 2025 04:00

دنیا میں 120 مقامات جنگ زدہ جبکہ سلامتی کونسل قیام امن میں ناکام، گرینڈی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 29 اپریل 2025ء) پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر فلیپو گرینڈی نے کہا ہے کہ دنیا میں تشدد عام ہو گیا ہے اور اس وقت 120 مقامات پر جنگیں جاری ہیں جبکہ سلامتی کونسل امن و سلامتی برقرار رکھنے کی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔

ہائی کمشنر کی حیثیت سے سلامتی کونسل کو ممکنہ طور پر اپنی آخری بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ سفارت کاری جاری رکھنا ضروری ہے۔

دنیا میں 123 ملین لوگوں کو اپنے علاقوں میں تباہ کن صورتحال سے بچنے کے لیے نقل مکانی کرنا پڑی ہے تاہم، وہ نہ تو محفوظ واپسی کی امید ترک کریں گے اور نہ ہی اپنی مدد کرنے والوں کو مایوس ہونے دیں گے۔

Tweet URL

انہوں نے بین الاقوامی انسانی قانون کو نظرانداز کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پوپ فرانسس کے الفاظ دہرائے کہ ہر جنگ ایک شرمناک شکست ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

ہائی کمشنر نے غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ علاقے میں حالات روز بروز مایوس کن ہوتے جا رہے ہیں۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) کو ان لوگوں کی مدد کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور غزہ کی پٹی میں امدادی سرگرمیوں کے لیے اس ادارے کا اہم ترین کردار ہے جو جاری رہنا چاہیے۔

سوڈان

فلیپو گرینڈی نے اپنی بریفنگ میں سوڈان کے حالات کا تذکرہ بھی کیا جہاں تشدد، بیماریوں، قحط اور جنسی مظالم کے باعث ایک تہائی آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں عام شہری تشدد کا براہ راست نشانہ بن رہے ہیں جبکہ بیوروکریسی اور سیاست امدادی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔

انہوں نے سوڈان کے ہمسایہ ملک چاڈ کے اپنے حالیہ دورے کا تذکرہ بھی کیا جہاں ان کی ڈارفر سے نقل مکانی کر کے آنے والے سوڈانی پناہ گزینوں سے بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے بتایا کہ کیسے وہ ہولناک مشکلات کا سامنا کر کے وہاں آئے۔

فلیپو گرینڈی نے کونسل کے ارکان پر سوڈان کے معاملے میں اتحاد کے لیے زور دیتے ہوئے خبردار کیا کہ جنگ کے نتیجے میں ملک مزید تقسیم کی جانب بڑھ رہا ہے، مقامی ملیشیائیں زور پکڑ رہی ہیں، حقوق کی پامالیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور امن کے لیے کوششیں پیچیدہ ہو رہی ہیں۔ جنگ سے مزید بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کے یورپ کی جانب رخ کرنے کا اندیشہ ہے جبکہ دو لاکھ سے زیادہ سوڈانی پہلے ہی لیبیا میں موجود ہیں۔

شام

ہائی کمشنر نے شام کے حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ میں ملک کا نیا پرچم لہرایا جانا شام میں تبدیلی کی ایک مضبوط علامت ہے۔ انہوں نے رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ شام کے عوام کو اپنے سیاسی اختلافات پر مقدم رکھیں۔ اگرچہ 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد ملک کو بہت بڑے مسائل درپیش ہیں لیکن امید کی کرن بھی موجود ہے جسے ماند نہیں پڑنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 دسمبر کے بعد بالخصوس اردن، لبنان اور ترکیہ میں مقیم شامی پناہ گزینوں کی بڑی تعداد ملک میں واپسی اختیار کر رہی ہے۔ اندرون و بیرون ملک نقل مکانی اختیار کرنے والے 10 لاکھ سے زیادہ لوگ واپس آ چکے ہیں اور مزید بھی آئیں گے۔

واپس آنے والوں کے استحکام کا دارومدار ملک پر پابندیوں کے خاتمے، جلد از جلد بحالی کے اقدامات میں مدد دینے، ملک میں سرمایہ کاری کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی اور تحفظ، پانی، بجلی، تعلیم اور معاشی مواقع تک رسائی یقینی بنانے سے ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک کے لیے انسانی امداد کی فراہمی میں اضافہ ہونا چاہیے جس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔

روہنگیا بحران

فلیپو گرینڈی نے کہا کہ میانمار سے تعلق رکھنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد 12 لاکھ تک پہنچ گئی ہے جن کی اکثریت بنگلہ دیش میں مقیم ہے۔ انہوں کئی سال سے ان لوگوں کو مدد کی فراہمی پر بنگلہ دیش اور اس کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔

تاہم، ہائی کمشنر کا کہنا تھا کہ پناہ گزین کیمپوں میں مقیم روہنگیا آبادی کو روزگار کمانے کی اجازت نہیں اور ان کا تمام تر دارومدار انسانی امداد پر ہے جس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے۔ بہت سے روہنگیا بہتر مواقع کی تلاش میں سمندر کے خطرناک سفر پر نکلتے ہیں یا انہیں جبراً مسلح گروہوں میں بھرتی کیے جانے کا خطرہ رہتا ہے۔

انہوں نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ میانمار کی صورتحال اور روہنگیا کی حالت زار پر خاطر خواہ توجہ دے اور امید ظاہر کی کہ رواں سال ستمبر میں روہنگیا مسئلے پر ہونے والی کانفرنس میں ان کی مدد کے حوالے سے پیش رفت کی امید ہے۔

یوکرین

ہائی کمشنر نے یوکرین کی حالیہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'یو این ایچ سی آر' حکومت اور سول سوسائٹی کے شراکت داروں کی مدد سے ملک کے لوگوں کی مشکلات میں کمی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے لوگوں کو مںصفانہ امن درکار ہے اور نقل مکانی کرنے والے ایک کروڑ لوگوں کی حالت زار کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے جن میں 70 لاکھ پناہ گزین ہیں۔