پنجاب میں گھریلو ملازمین کوسوشل سکیورٹی کارڈ جاری کئے جائیں: ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب

مزدوروں کی عالمی دن 2025 کے موقع پرریلی کے شرکاء کا کم از کم اجرت37000 روپے کے نفاذ کا مطالبہ

جمعرات 1 مئی 2025 18:33

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 مئی2025ء) صوبہ پنجاب میں 9 لاکھ 12 ہزار کے قریب گھریلو ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں اکثریت خواتین کی ہے لیکن ان کی محنت کا کافی حد تک استحصال کیا جاتا ہے۔ 15 سال سے کم عمر بچے اور بچیاں گھریلو مزدوری میں شامل ہیں جو جدید غلامی کی شکل ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 پرعمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

کم از کم اجرت 37000 روپے کا نفاذ کیا جائے۔ قانون کے مطابق رولز آف بزنس کو جلد از جلد فریم کر کے عمل درآمد کیا جائے۔ گھریلو ملازمین کی PESSI کے ساتھ رجسٹریشن کی جائے اور سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کئے جائیں ورنہ موجودہ لیبر قوانین کے نفاذ اور پالیسی اقدامات کے بغیر، گھریلو ملازم خواتین آجروں کے ہاتھوں استحصال اور بدسلوکی کا شکار رہیں گی۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب کے زیراہتمام لیبر ڈے 2025 کے سلسلے میں لاہور پریس کلب میں منعقدہ یوم مئی سیمینار کے مقررین نے کیا۔ اس تقریب میں بڑی تعداد میں خواتین گھریلو ملازمین نے شرکت کی جس کے بعد ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین کی رہنماؤں کی قیادت میں پریس کلب سے چیئرنگ کراس تک ایک عوامی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکاء نے نعرے بازی کی اور بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر گھریلو ملازمین کے حق میں مطالبات درج تھے۔

سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے وائز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشریٰ خالق نے کہا کہ پنجاب بیورو آف اسٹیٹکس کے ایک سروے کے مطابق صوبے میں تقریباً 9 لاکھ 12 ہزار گھریلو ملازمین ہیں جن میں سے 80 فیصد سے زیادہ خواتین ایسی ہیں جو کام کے حالات، ملازمت کی شرائط اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے حوالے سے امتیازی سلوک کا شکار ہیں۔ انہیں کام کے طویل اور لامحدود گھنٹوں، تشدد اور کام پر بدسلوکی کی متعدد اقسام، جبری/ بچوں کی مزدوری، کم از کم اجرت کی کمی، لیبر انسپکشن کی کمی اور قانون نافذ کرنے جیسے مسائل کا سامنا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

پنجاب میں گھریلو ملازمین کے قانون کے باوجود گزشتہ پانچ سالوں میں انہیں PESSI کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے پنجاب حکومت پر زور دیا کہ وہ قانون کے موثر نفاذ کے لئے بلا تاخیر رولز آف بزنس فریم کر کے عمل درآمد کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک بھر میں چائلڈ ڈومیسٹک ورک عام ہے کیونکہ پاکستان میں ہر چوتھے گھر میں ایک بچہ/ بچی گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتا کرتی/ ہے۔

ان بے گناہ گھریلو ملازمین کو چار دیواری کے اندر خاموشی سے گالیاں دی جاتی ہیں، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور قتل کیا جاتا ہے۔ قانونی عمر سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے کا سلسلہ جاری ہے اور ایسے واقعات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جہاں گھریلو ملازمین کو جسمانی تشدد اور معاشی استحصال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جنوری 2019 سے اپریل 2025 کے عرصے کے دوران وائز کی رپورٹ کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بشریٰ خالق نے کہا کہ پنجاب میں گھریلو ملازمین کے خلاف تشدد کے 189 واقعات رپورٹ ہوئے۔

اس عرصے (76 ماہ) کے دوران 42 گھریلو ملازمین کو ہلاک کیا گیا، 27 کے ساتھ ریپ ہوا۔ 162 کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس میں لوہے کی سلاخ سے مارنا، استری سے جلانا، سر کے بال کاٹنا وغیرہ شامل ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان متاثرہ بچوں میں 86% پندرہ سال سے کم عمر کی بچیاں ہیں۔ اس موقع پر ویمن ڈومیسٹک ورکرز یونین پنجاب کی صدر شہناز اجمل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کے نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور ڈومیسٹک ورکرز کے لئے اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام متعارف کرائے جائیں۔

پنجاب ایمپلائیز سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوٹ (PESSI) ڈومیسٹک ورکرز ویلفیئر فنڈ قائم کرے، ڈومیسٹک ورکرز کو رجسٹر کرے اور انہیں سوشل سیکیورٹی کارڈ جاری کرے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ گھریلو ملازمین کی زچگی کی چھٹیاں 6 ہفتوں سے بڑھا کر 12 ہفتوں کی جائیں، گھریلو ملازمین کو EOBI میں رجسٹرڈ کیا جائے اور سستی ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کی جائے۔ ڈومیسٹک ورکرز یونین کی جنرل سیکرٹری شہناز فاطمہ نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ ILO کے C-189 کی توثیق کرے تاکہ مہذب کام کو یقینی بنایا جا سکے، SDG-5 کی فوری تعمیل، صنفی مساوات اور چائلڈ ڈومیسٹک لیبر کے خاتمے کے لئے پالیسی اقدامات کئے جائیں۔

انہوں نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ وہ گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے عوامی آگاہی مہم شروع کرے کیونکہ آجروں کی اکثریت ان کی قانونی ذمہ داریوں سے لاعلم ہے۔ انہیں گھریلو ملازمین کے ساتھ وقار اور احترام کے ساتھ برتاؤ کر کے اچھے آجر بننے کی ضرورت ہے اور ان کے لئے کام کے مہذب حالات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔ خواتین گھریلو ملازمین کیئر اکانومی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔

قانونی حقوق اور تحفظ کے بارے میں آگاہی کا فقدان پنجاب میں گھریلو ملازمین کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے۔ بہت سے لوگ قانون کے تحت اپنے حقوق سے لاعلم ہیں، جیسے مناسب اجرت، کام کے مناسب گھنٹے اور کام کے محفوظ حالات۔ انہوں نے مزید کہا کہ علم کا یہ خلا انہیں استحصال، بدسلوکی اور غیر منصفانہ مزدوری کے طریقوں کا شکار بنا دیتا ہے۔