شاران فوریسٹ، جہاں درشی اور منشی کی پریم کہانی نے جنم لیا

DW ڈی ڈبلیو اتوار 11 مئی 2025 15:00

شاران فوریسٹ، جہاں درشی اور منشی کی پریم کہانی نے جنم لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2025ء) خیبرپختونخوا کے شہر مانسہرہ کے بازار میں آپ کو جیپوں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں، جو مسافروں کو شاران فوریسٹ تک پہنچانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ 14 کلومیٹر کا پتھریلہ راستہ طے کرنے کے بعد آپ ایک سر سبز وادی میں قدم رکھتے ہیں، جہاں نیلے پائن، دیودار، اخروٹ اور برچ کے بلند و بالا درخت آپ کا استقبال کرتے ہیں۔

یہ شاران فوریسٹ اور اس کی وادی ہے، جو سیاحوں کے لیے نسبتاً کم معروف مقام ہے۔

وادی سے پندرہ بیس منٹ پیدل اترائی کے بعد پانی کی راجدھانی شروع ہوتی ہے، پتھروں سے اٹھکیلیاں کرتی نیلی ندی، اس کی پشت پر پہاڑ، سامنے جنگلات اور ایک طرف شاران واٹر فال کا منظر، فطرت کے اتنے خوبصورت رنگ ایک جگہ اکٹھے دیکھ کر سفر ہی نہیں زندگی کی تھکان بھی اتر جاتی ہے۔

(جاری ہے)

ہندکو اور گوجری بولنے والے 'خوش باش لوگ‘

شاران واٹر فال کے ساتھ لکڑی سے بنی ایک کٹیا دیکھ کر مجھے انڈیا کے مشہور فلم کمپوزر جے دیو یاد آ گئے۔ 'ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر‘ سمیت درجنوں مشہور گیتوں کے خالق جے دیو کہا کرتے تھے کہ جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ کر پہاڑوں کی آغوش میں ایک کٹیا بنا لوں، قریب کسی آبشار کی موسیقی سنتا رہوں اور ہمیشہ کے لیے وہاں رہ جاؤں۔

یہ کٹیا ماحول کو کسی قدیم داستانوں رنگ جیسا حسن عطا کر رہی تھی۔

کٹیا میں داخل ہوتے ہی پتہ چلا کہ یہ پکوڑے اور چائے بنانے والے چچا بھتیجے کا ٹھکانہ ہے، جن کے نام حسن عباس اور محمد عباس تھے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے حسن عباس کہتے ہیں، ”یہ سیزن ہے، سیاحوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ سردیوں کے تین چار ماہ یہاں برف ہی برف ہوتی ہے۔

نیلی ندی کے اوپر برف کی تہہ جم جاتی ہے۔ آبشار خاموشی کے پردے میں چھپ جاتی ہے۔ پہاڑ سبز چادر اتار کر سفید تان لیتے ہیں۔ تب ہم بڑے شہروں میں محنت مزدوری کرنے نکل جاتے ہیں۔"

ڈی ڈبلیو اردو کے معلوم کرنے پر محمد عباس نے بتایا، ”یہاں سب سے زیادہ تعداد ہندکو بولنے والوں کی ہے۔ اس کے بعد گوجری بولنے والے ہیں۔ سرکاری اور پرائیوٹ ہر طرح کے سکول ہیں۔

پڑھائی کا کافی رجحان ہو گیا ہے۔ ہمارے گھر میں گیارہ بچے ہیں، سبھی سکول جاتے ہیں۔ بیٹیاں بھی پڑھ رہی ہیں اور بیٹے بھی۔"

جیب میں سفر کے دوران ہم نے دیکھا کہ گندم ابھی سنہری نہیں ہوئی۔ جیپ ڈرائیور حفیظ اللہ سے پوچھا کہ یہاں کون کون سی فصل ہوتی ہے؟ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”گندم اور اس کے بعد جو کی فصل ہوتی ہے۔

ان دونوں کی کھپت گھروں میں ہی ہو جاتی ہے۔"

پنجاب سے جانے والے بہت سے لوگوں کی طرح ہمارے لیے بھی یہ نئی بات تھی کہ جو کا آٹا گھروں میں روٹی کے لیے کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ کچھ پنجابی دوستوں سے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ تیس چالیس سال پہلے تک پنجاب میں بھی یہ عام تھا، پنجاب باجرے اور جو کی روٹی سے اس لیے اجنبی ہو گئے کہ یہاں گندم کی بہتات ہونے لگی۔

موسمیاتی تبدیلیاں یہاں بھی لوگوں کو پریشان کر رہی ہیں۔ حفیظ اللہ کہتے ہیں، ”شاران میں اخروٹ اور سیب عام ہیں لیکن چند ہفتے پہلے ہونے والی ژالہ باری نے بہت نقصان پہنچایا۔ آدھے سے زیادہ اخروٹ اور سیب کچے ہی جھڑ گئے۔ میں نے یہاں کے خوش باش لوگ پہلی بار پریشان دیکھے۔"

سیاحت کا بڑھتا ہوا رجحان

مختلف مقامی لوگوں سے بات چیت کرنے کے بعد ڈی ڈبلیو اردو کو معلوم ہوا کہ نومبر سے اپریل کا دورانیہ یہاں کی سیر کے لیے مثالی سمجھا جاتا ہے۔

شاران وادی سے تقریباً دو گھنٹے کی ہائیکنگ کے بعد آپ 'منشی ٹاپ‘ پہنچ سکتے ہیں۔ 'موسی کا مصلیٰ‘ سیاحوں کے لیے ایک اور پرکشش مقام ہے۔

سن 2016 میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے یہاں تعمیر کردہ لکڑی کے ہٹس اور جدید 'پوڈ‘ ہاؤسز بنائے گئے، جہاں مسافر قیام کر سکتے ہیں۔

انگریز دور کی تعمیر کردہ لکڑی کی ایک قدیم عمارت اب بھی کھڑی ہے، جو اس وادی کی تاریخ کی گواہ ہے۔

گلے میں کیمرہ لٹکائے فوٹوگرافر عادل نوشیروان گزشتہ 12 برس سے وہاں فوٹوگرافی کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا، ”گزشتہ پانچ سات برس میں یہاں سیاحوں کی آمد و رفت زیادہ ہوئی۔ ناران کاغان کی خوبصورتی میں کوئی دوسری رائے نہیں لیکن وہاں رش کی وجہ سے فطرت اپنی خاموشی اور معصومیت کھو چکی ہے۔ اگر آپ سکون چاہتے ہیں تو شاران بہترین مقام ہے، یہاں پر ابھی سیاحت کے شور و ہجوم کی گرد نہیں پڑی، یہاں اب بھی فطرت کی خاموشی سنی جا سکتی ہے۔

"

درشی اور منشی کی لازوال پریم کہانی 'قینچی‘

ماضی میں ہزارہ کشمیر کا حصہ تھا اور یہاں سکھوں کی حکومت رہی۔ اسی عہد میں درشی اور منشی کے دل میں محبت کی چنگاری پھوٹی، جو آج تک لوک گیتوں اور کہانیوں میں اپنی لو دے رہی ہے۔

جیسا کہ لوک کہانیاں سینہ بہ سینہ چلتی ہیں، درشی اور منشی کی پریم کہانی بھی چلتی رہی۔

سن 2016 میں شاعر اور ادیب احمد حسین مجاہد نے طویل تحقیق کے بعد اسے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ 'قینچی‘ کے نام سے شائع ہونی والی یہ داستان نثر کے بجائے اشعار کی صورت میں ہے۔ اس طرح احمد حسین مجاہد کو ہندکو میں پہلی مثنوی لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

ڈی ڈبلیو اردو کے رابطہ کرنے پر وہ تفصیل سے درشی اور منشی کے قصے پر روشنی ڈالتے ہیں۔

مجاہد کے بقول، ”یہ سکھوں کے عہد کی کہانی ہے۔ موجودہ کشمیر کے ایک ٹھیکدار کو شاران فوریسٹ میں درختوں کی کٹائی کا ٹھیکہ ملا۔ اس کی ٹیم میں ضیا الدین نامی ایک منشی بھی تھا، جسے ایک مقامی لڑکی حلیمہ سے محبت ہو گئی۔ حلیمہ کے گاؤں کا نام درشی تھا، جو آج بھی شاران میں موجود ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”مقامی لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئی، مختلف روایات ہیں، بعض کے مطابق منشی کو قتل کر دیا گیا، بعض کے مطابق جلا دیا گیا، بعض کے مطابق وہ چپکے سے نکل گیا۔

حیرت انگیز طور پر درشی کے بارے تمام روایتیں کوئی بھی معلومات فراہم نہیں کرتیں کہ وہ کہاں گئی۔"

احمد حسین مجاہد مزید بتاتے ہیں، ”درشی اور منشی کی محبت کا قصہ ایک سے دوسری نسل کو زبانی منتقل ہوتا رہا، صدیوں کا فاصلہ ہے، اکثر لوک کہانیوں کی طرح اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا ناممکن ہے۔"

یہ گیت اور داستان 'قینچی‘ کے نام سے کیوں مشہور ہوئی؟

احمد حسین کے بقول، ”یہاں ایک گیت بہت مشہور ہے، جس میں قینچی کا لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے۔

قینچی دراصل دلوں کو کاٹنے یا تعلق کے کٹنے کا استعارہ ہے۔"

یہ باتیں سنتے ہوئے میرے ذہن میں وہ منظر گھومنے لگا، جب جیپ ڈرائیور نے رفیع کا گانا لگایا تو ہم نے اس سے یہاں کے مقامی گیت سننے کی فرمائش کی۔ اس نے ٹیپ کے بٹن پر ہاتھ مارا اور خاموش وادی میں درشی اور منشی کی محبت کا گیت گونجنے لگا،

گھنواے درخت تے بڑی بڑی چھاں

منشی کی چٹھی بچ بولے میرا ناں

لگی قینچی دلاں کی