اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2025ء) نیچر فوڈ سائنس جرنل میں اپریل 2025 کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کم عرض بلد والے علاقوں میں چار اہم غذائی فصلوں چاول، مکئی، گندم، اور سویا بین کی پیداوار نصف تک گر سکتی ہے۔ ان علاقوں میں پاکستان سمیت متعدد ممالک شامل ہیں، جہاں غذائی تحفظ اور معاشی عدم استحکام کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے عالمی زراعت پر اثرات
موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں ماحول، معیشت اور روزمرہ کی زندگی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں، جن میں سب سے نمایاں خطرہ غذائی تحفظ کا ہے۔ فن لینڈ کی یونیورسٹی آف آلٹو کے سائنسدانوں کی اس تحقیق میں 30 اہم غذائی فصلوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
(جاری ہے)
تحقیق کے مطابق کم عرض بلد والے علاقے، جو اپنے زرعی تنوع کی وجہ سے مشہور ہیں، اب گلوبل وارمنگ، غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شدت کی وجہ سے اپنی پیداواری صلاحیت کھو رہے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا تو ان علاقوں میں 30 اہم فصلوں کی پیداوار نصف تک کم ہو سکتی ہے، جس سے شدید غذائی قلت کا سامنا ہو گا۔
تحقیق کے اہم نکات؟
نیچر فوڈ سائنس جرنل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے سے غذائی فصلوں کے تنوع میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کئی خطوں میں مقامی فصلوں کے لیے موزوں درجہ حرارت اب بڑھ چکا ہے، جس کی وجہ سے صدیوں سے کاشت کی جانے والی اجناس اگانا مشکل ہو گیا ہے۔
تحقیق کی مرکزی مصنفہ سارا ہیکونن، جو یونیورسٹی آف آلٹو میں ڈاکٹورل ریسرچ سکالر ہیں، بتاتی ہیں کہ ان کی ٹیم نے خاص طور پر چار بنیادی فصلوں چاول، مکئی، گندم اور سویا بین پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مطالعہ کیا۔
سارا ہیکونن کے مطابق ان فصلوں کی پیداوار میں نصف تک کمی کا مطلب ہے کہ متاثرہ علاقوں کے باشندوں کے لیے مناسب کیلوریز اور پروٹین حاصل کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔
سارا نے مزید کہا کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے بنیادی فصلوں کی کاشت کے لیے کئی علاقے اب موزوں نہیں رہے، جبکہ کم آمدنی والے ممالک میں اناج، دالیں اور شکر قندی جیسی اجناس غذائی توانائی کا اہم ذریعہ ہیں۔
سارا ہیکونن کے مطابق اگر عالمی درجہ حرارت تین ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ گیا تو سب صحارا افریقہ، جنوبی ایشیا، لاطینی امریکہ اور وسطی ایشیا کے ممالک میں ان بنیادی فصلوں کی پیداوار تین چوتھائی تک گر سکتی ہے۔ اس سے دنیا بھر کی غذائی توانائی کا دو تہائی حصہ فراہم کرنے والی فصلیں شدید متاثر ہوں گی۔
معاشی اور غذائی اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زرعی پیداوار میں کمی کے معاشی اثرات بھی سنگین ہیں۔
راولپنڈی میں ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر محمد عظیم کے مطابق بدلتی آب و ہوا اور ایکو سسٹم میں تبدیلیوں نے زرعی مارکیٹوں کی ترجیحات کو بدل دیا ہے۔محمد عظیم نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ غذائی فصلوں کے تنوع والے ممالک میں کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ بڑھتے درجہ حرارت کے مطابق نئی فصلیں اگائیں اور غیر موزوں فصلوں کو ترک کریں۔
تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ عمل اتنا سادہ نہیں، کیونکہ ایسی تبدیلیوں کے لیے وسائل، تحقیق اور پالیسی سپورٹ کی ضرورت ہے۔پاکستان میں زرعی بحران
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زراعت پر واضح ہیں۔ پنجاب کے ضلع قصور سے تعلق رکھنے والے کسان عبدالرحیم، جن کا خاندان تین نسلوں سے زراعت سے وابستہ ہے، نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ موسموں کی غیر یقینی صورتحال نے کاشتکاری کو مشکل بنا دیا ہے، ''پہلے سال میں چار موسم ہوتے تھے اور کسان اسی کے مطابق فصلیں بویا اور کاٹا کرتے تھے۔
اب موسموں کا اپنا ہی مزاج ہے۔‘‘عبدالرحیم نے بتایا کہ گندم کو موسم سرما کے اوائل میں بویا اور اپریل سے پہلے کاٹا جاتا تھا لیکن اب مارچ سے ہی گرمی شروع ہو جاتی ہے۔ غیر متوقع آندھی، طوفان اور ژالہ باری نے گندم کی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔
اسی طرح قصور اور ملحقہ علاقوں میں مکئی کی کاشت بھی متاثر ہو رہی ہے۔
عبدالرحیم کے مطابق مکئی کو مئی میں مون سون کے آغاز پر بویا اور اکتوبر میں کاٹا جاتا ہے لیکن اب مون سون جولائی سے شروع ہونے لگا ہے، جس سے کسان پریشان ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوئی خاص تربیت نہیں دی جا رہی، جس کی وجہ سے بہت سے نوجوان زراعت چھوڑ کر شہروں کی طرف جا رہے ہیں۔پاکستان کی زرعی برآمدات اور معاشی مسائل
اس حوالے سے محمد عظیم کہتے ہیں کہ پاکستان کی برآمدی زرعی فصلیں زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کر دار ادا کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان نے سن 2025 کی پہلی ششماہی میں 3.6 ملین ٹن باسمتی چاول برآمد کیے، جن کی کل مالیت 1.87 ارب روپے تھی۔ تاہم بدلتے موسمی پیٹرن اور سن 2022 کے تباہ کن سیلاب نے چاول کی پیداوار کو شدید نقصان پہنچایا، جس سے 60 لاکھ ٹن فصل تباہ ہوئی۔اسی طرح کپاس کی پیداوار گزشتہ دہائی میں آدھی رہ گئی ہے، جو پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بڑا دھچکا ہے۔
کسانوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ کون سے موسم میں فصل بوئی اور کٹائی کی جائے۔کلائیمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر بشیر احمد کے مطابق بارشوں کی کمی سے بارانی فصلوں کی پیداوار میں چھ سے 15 فیصد کمی آئی ہے۔ گندم، جو پاکستان کی سب سے اہم فصل ہے، کی پیداوار میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ کمی صرف بارشوں کی کمی سے ہے، جبکہ ہیٹ ویوز اور سیلابوں سے ہونے والا نقصان اس سے الگ ہے۔
محمد عظیم نے بتایا کہ فصلوں کی کم پیداوار سے پاکستانی منڈیوں میں اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ موجودہ سیزن میں 40 کلوگرام گندم کے آٹے کی قیمت 4,000 روپے تک پہنچ گئی ہے، جو غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔
ان کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیا زراعت میں ایک عبوری مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ کسانوں کو جدید طریقے سکھانا اور زرعی پالیسیوں کو تحقیق کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو غذائی قلت اور معاشی بحران سے بچنا مشکل ہو گا۔
ادارت: امتیاز احمد