ا*براہوئی ادب، معاشرتی شعور اورمیر ڈاکٹر صلاح الدین مینگل مرحوم کی

u فکری میراث کی آبیاری کے لئے مربوط و منظم جدوجھد درکار ہیں ں* دانشوروں و ادیبوں کا میر صلاح الدین مینگل مرحوم کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین

اتوار 11 مئی 2025 20:25

۰+کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 مئی2025ء)میر صلاح الدین مینگل مرحوم ایک روشن چراغ تھے انھوں نے مسلسل و مربوط انداز میں اپنے زبانوں کی منظم انداز میں بے مثال خدمات انجام دی ہیں بلوچستان کی علمی و ادبی فضائیں ان کے جانے سے مغموم ہیں وہ روشنی کی جگمگاتا کرن تھا مجلسِ فکر و دانش علمی و فکری مکالمے نے "آفاق بلوچستان" کے تعاون سے ایک اہم فکری نشست کا اہتمام کیا۔

اس علمی و ادبی مکالمے کا عنوان تھا: "بیسویں صدی کے براہوئی ادب و تاریخ کے تناظر میں لمحہ موجود میں معاشی و معاشرتی زندگی سنوارنے کے امکانات و فریم ورک"۔ اس تقریب کو ممتاز محقق و دانشور ڈاکٹر صلاح الدین مینگل مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے اور براہوئی ادب کی فکری بنیادوں پر غور و فکر کا نام دیا گیا تھا،براہوئی ادب بلوچستان کا ایک قدیم اور گہرا ثقافتی ورثہ ہے جو نہ صرف لسانی اور ادبی پہلوں کا حامل ہے بلکہ اس میں ایک مزاحمتی شعور، تاریخی گہرائی اور ثقافتی خودی کی جھلک بھی موجود ہے۔

(جاری ہے)

اس فکری نشست کا انعقاد اسی سوچ کے تسلسل میں کیا گیا تاکہ براہوئی زبان و ادب کی موجودہ صورتحال، اس کی سماجی اہمیت اور مستقبل کے امکانات پر بات چیت کی جا سکے۔اس تقریب کا سب سے اہم پہلو عظیم براہوئی مفکر، ادیب، شاعر، قانون دان، محقق اور صحافی ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی یاد میں خراجِ عقیدت تھا۔ ڈاکٹر مینگل ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے براہوئی زبان کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ اسے دنیا کے علمی افق پر متعارف کروانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

ان کی تصانیف، شعری مجموعے، تحقیقی مقالے، قانونی مضامین اور صحافتی تحریریں ایک فکری سرمائے کی حیثیت رکھتی ہیں۔تقریب میں کوئٹہ شہر اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے علمی، ادبی، تدریسی اور صحافتی حلقوں کی نمایاں شخصیات نے شرکت کی۔ ان میں مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے سربراہ ممتاز ماہر عمرانیات و سماجیات عبدالمتین اخونزادہ ،خضدار سے پروفیسر شیر احمد قمبرانی، پروفیسر نور خان محمد حسنی، عبدالقیوم بیدار، سردار حبیب اللہ بڑیچ، نوجوان دانشور کلیم اللہ کاکڑ، ڈاکٹر نظام الدین، براھوئی اکیڈمی کے سیکرٹری سلطان شاہوانی، خضدار سے ممتاز ماہر تعلیم و تربیت کار محمد عالم براھوئی ، دالبندین و چاغی سے ممتاز شخصیت چیئرمین میر محمد یوسف نوتیزئی ، پروفیسر اکبر علی ساسولی ، پروفیسر شاہین برانزئی ، نوجوان و خوبصورت شخصیت میر صلاح الدین مینگل مرحوم کے بھائی ملک مصلح الدین مینگل ، شراف الدین مینگل ، وقاص احمد خان ،ریان احمد خان ،جناب علی گل اور دیگر شامل تھے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر شیراحمد قمبرانی نے اپنے تحقیقی مقالے میں واضح کیا کہ ترقیاتی منصوبوں میں اگر مقامی ثقافت، زبان اور تاریخ کو نظر انداز کیا جائے تو وہ منصوبے پائیدار نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ براہوی ادب میں وہ تمام فکری اصول موجود ہیں جو ایک مقامی ترقیاتی فریم ورک کی بنیاد بن سکتے ہیں۔پروفیسر نور خان محمد حسنی نے کہا کہ بیسویں صدی کا براہوئی ادب محض تخلیقی اظہار نہیں تھا بلکہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف ایک تہذیبی مزاحمت کا آئینہ بھی تھا۔

انہوں نے کہا کہ علامت، طنز، اور تاریخ نگاری کے ذریعے براہوی ادیبوں نے سماجی محرومیوں کا بیانیہ ترتیب دیا۔سلطان شاہوانی نے ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مینگل نے براہوئی زبان کو محض ایک ادبی زبان نہیں بلکہ ایک فکری، تاریخی اور ثقافتی طاقت کے طور پر پیش کیا۔ وہ نہ صرف ایک استاد تھے بلکہ مربی، مشیر، اور ایک موٹیویشنل شخصیت بھی تھے۔

عبدالقیوم بیدار نے کہا کہ ڈاکٹر مینگل کی فکری میراث صرف براہوئی زبان تک محدود نہیں بلکہ وہ بلوچستان کی تمام اقوام میں یکساں مقبول تھے۔ ان کی تحریریں ہر شعبہ زندگی کے انسان کو متاثر کرتی ہیں۔ڈاکٹر نظام الدین نے کہا کہ ڈاکٹر مینگل کو بجا طور پر براہوی زبان کا انسائیکلوپیڈیا کہا جا سکتا ہے۔ ان کی کوششوں کی بدولت آج پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں براہوی زبان کی تدریس کا آغاز ہو چکا ہے۔

کلیم اللہ کاکڑ نے براہوئی ادب کی ترقی میں ڈاکٹر مینگل کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی فکری فیاضی کے باعث آج بڑی لائبریریوں میں براہوئی زبان کے سیکشنز آباد ہیں۔ حافظ محمد حنیف کاکڑ نے ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کے ادبی شہ پاروں میں دینی واصلاحی پہلووں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو مذہب سے لگاو بھی مثالی تھا۔انکو سرت النبی صلی اللہ علہ وسلم پر صدارتی ایوارڈ سے نواازاگیا۔

سردار حبیب اللہ بڑیچ نے حکومتوں کی عدم توجہی کو براہوئی زبان کے زوال کا سبب قرار دیا اور کہا کہ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ مقامی زبانوں کے فروغ کے لیے مثر پالیسیاں مرتب کریں۔محمد عالم براھوئی نے کہا کہ صلاح الدین مینگل مرحوم تاریخ ساز و عہد ساز شخصیت تھے انھوں نے زندگی ادب و تحقیق کے لئے وقف کردیا تھا وہ تمام زبانوں کے احترام و اہمیت سے لبریز شخصیت تھے وہ فخر جھالاوان ہے مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے کے ڈائریکٹر عبدالمتین اخون زادہ نے کہا کہ ڈاکٹر محمد صلاح الدین مینگل مرحوم فکری و عملی شخصیت و کردار تھے اور ان کی جدوجھد و اعتماد کے بدولت ممکن ہوا ہے کہ براھوئی زبان وادب آج زبانوں کی ثیالی و احساس برتری کا مقام حاصل کر چکی ہے انھوں نے تمام شرکا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی فکری خدمات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تحریک چلائی جائے گی۔

اس نشست کا مرکزی نکتہ یہی تھا کہ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک شناخت ہے۔ جب کوئی قوم اپنی زبان کو فراموش کرتی ہے تو دراصل وہ اپنی تاریخ، ثقافت اور خودی کو کھو دیتی ہے۔ مقررین نے بارہا اس بات پر زور دیا کہ مادری زبانوں کی تعلیم، ادب، نصاب، اور ڈیجیٹل مواد میں شمولیت ازحد ضروری ہے۔تقریب میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ نوجوان نسل کو اپنی زبان اور ادب سے جوڑنے کے لیے ترجمہ کاری، ڈیجیٹل آرکائیوز، آڈیو و ویڈیو بکس، اور جدید نصاب کی تشکیل ضروری ہے۔

ڈاکٹر مینگل کی تحریروں کو عصری تقاضوں کے مطابق ترتیب دے کر نئی نسل تک پہنچانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔آخر میں ایک قراداد منظور کی گئی کہ براہوی زبان کی ترویج کے لیے سرکاری سطح پر ادارے قائم کیے جائیں۔براہوی زبان کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ادبی شخصیات کی خدمات پر تحقیقی کام کو فروغ دیا جائے۔زبان و ادب کو ترقیاتی منصوبہ بندی کا حصہ بنایا جائے یہ نشست محض ایک علمی تقریب نہیں تھی بلکہ ایک فکری چراغ تھی جس نے یہ پیغام دیا کہ اگر ہم اپنی زبان، ادب اور ثقافت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کی فکری بنیادوں کو سمجھنا ہوگا، ان پر عمل کرنا ہوگا، اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر صلاح الدین مینگل کی شخصیت اسی فکری تسلسل کی ایک زندہ مثال ہے۔