Live Updates

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے سابق ارکان کا عراق اور افغانستان میں بچوں اور قیدیوں کو بلاجوازقتل کرنے کا اعتراف

قیدیوں کا قتل معمول تھا سپیشل فورسزکے ارکان کسی قیدی کی تلاشی لیتے، ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر گولی مار دیتے.سابق فوجیوں کی برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 14 مئی 2025 13:43

برطانیہ کی سپیشل فورسز کے سابق ارکان کا عراق اور افغانستان میں بچوں ..
لندن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔ 14 مئی ۔2025 )برطانیہ کی سپیشل ایلیٹ فورسز کے سابق ارکان نے عراق اور افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم اور سپیشل فورسز کی جانب سے بچوں اور قیدیوں کو بلاجوازقتل کرنے کا اعتراف کیا ہے ”بی بی سی“سے خصوصی گفتگو میں سابق فوجیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ انہوں نے ایس اے ایس کے ارکان کو نیند کی حالت میں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے زیر حراست افراد کو قتل کرتے دیکھا جن میں بچے بھی شامل تھے.

(جاری ہے)

افغانستان میں ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے بتایا کہ ایک نوجوان لڑکے کو ہتھکڑیاں لگا کر ان کے سامنے گولی ماری گئی انہوں نے کہاکہ قیدیوں کا قتل معمول تھا سپیشل فورسزکے ارکان کسی قیدی کی تلاشی لیتے، ہتھکڑیاں لگاتے اور پھر گولی مار دیتے اس کے بعد پلاسٹک کی ہتھکڑیاں کاٹ دیتے تھے اور ان کی لاش کے پاس پستول رکھ دیتے .

ان بیانات میں ایسے جنگی جرائم کے الزامات شامل ہیں کہ جو ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط ہیں رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سلسلہ میں برطانیہ میں ایک پبلک انکوائری بھی جاری ہے رائل نیوی کی ایلیٹ سپیشل فورس رجمنٹ ”ایس بی ایس“ کو بھی پہلی بار انتہائی سنگین الزامات میں ملوث کیا گیا ہے جس میں نہتے اور زخمی افراد کو پھانسی دینا شامل ہے ایس بی ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے کہا کہ کچھ فوجیوں میں موب مینٹیلیٹی تھی اور انہوں نے ان کے رویے کو وحشیانہ قرار دیا ہے.

ان کا کہنا تھا کہ میں نے سب سے پرسکون لوگوں کو تبدیل ہوتے دیکھا ان میں نفسیاتی امراض کی سنگین خصوصیات ظاہر ہوئیں وہ لاقانونیت کا مظاہرہ کر رہے تھے انہیں لگ رہا تھا کہ انہیںکوئی نہیں پکڑ سکتابرطانوی فوجیوں کو طالبان جنگجوﺅں اور بم بنانے والوں سے بچانے کے لیے افغانستان میں خصوصی فورسز تعینات کی گئی تھیں یہ جنگ برطانیہ کی مسلح افواج کے ارکان کے لیے ایک مہلک جنگ تھی جس میں 457 افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے.

عینی شاہدین کی گواہی کے بارے میں پوچھے جانے پر برطانوی وزارتِ دفاع نے کہا کہ وہ مبینہ جنگی جرائم کی جاری عوامی تحقیقات کی حمایت کرنے کے لیے مکمل طور پر پرعزم ہے اور اس نے ایسے تمام سابق فوجیوں پر زور دیا کہ وہ سامنے آئیں جنہیں اس بارے میں معلومات ہیں انہوں نے کہا کہ وزارت دفاع کے لیے ایسے الزامات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہے جو انکوائری کے دائرہ کار میں ہوسکتا ہے.

عینی شاہدین کی گواہی میں یوکے سپیشل فورسز کے سابق ارکان کے ہاتھوں ہلاکتوں کے بارے میں اب تک کا سب سے تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے جس میں ایس اے ایس، ایس بی ایس اور متعدد معاون رجمنٹس شامل ہیں برطانیہ کی سپیشل فورسز میں یا ان کے ساتھ خدمات انجام دینے والے 30 سے زائد افراد کی گواہی ایس اے ایس کی جانب سے ماورائے عدالت ہلاکتوں کے الزامات کے بارے میں بی بی سی کا کہنا ہے اس وقت وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو بار بار متنبہ کیا گیا تھا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز افغانستان میں عام شہریوں کو ہلاک کر رہی ہیں.

عینی شاہدین نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربرطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ عراق اور افغانستان میں کارروائیوں کے دوران ملک کی ایلیٹ رجمنٹوں کی جانب سے جنگی قوانین کو باقاعدگی سے اور جان بوجھ کر توڑا جا رہا تھا ان قوانین میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں میں لوگوں کو جان بوجھ کر صرف اس صورت میں ہلاک کیا جا سکتا ہے جب وہ برطانوی فوجیوں یا دوسروں کی زندگیوں کے لیے براہ راست خطرہ ہوں عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان اپنے ہی قوانین بنا رہے تھے.

ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک سابق فوجی نے ان لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اگر کوئی ہدف پہلے بھی دو یا تین بار فہرست میں آیا تھا، تو ہم اسے ہلاک کرنے کے ارادے سے جاتے تھے اور گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جاتی تھی. ان کا کہنا تھا کہ کبھی کبھی ہم چیک کرتے تھے کہ اور ہدف کی شناخت کی تصدیق کرتے اور پھر انہیں گولی مار دیتے لیکن اکثر سکواڈرن صرف وہاں جا کر ان تمام آدمیوں کو مار ڈالتا تھا جو انہیں وہاں ملتے تھے ایس اے ایس کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ایک عینی شاہد نے کہا کہ قتل ”نشہ آور چیز“ بن سکتا ہے اور ایلیٹ رجمنٹ کے کچھ ارکان افغانستان میں اس احساس کے نشے میں مبتلا تھے‘بہت سارے نفسیاتی قاتل تھے.

انہوں نے کہاکہ کچھ کارروائیوں میں فوج گیسٹ ہاﺅس جیسی عمارتوں میں جاتی تھی اور وہاں موجود تمام لوگوں کو ہلاک کر دیتی تھی وہ اندر جاتے اور وہاں سوتے ہوئے سبھی لوگوں کو گولی مار دیتے لوگوں کو نیند میں مارنا جائز نہیں ہے ایس بی ایس میں خدمات انجام دینے والے ایک سابق اہلکار نے بتایا کہ کسی علاقے کو کنٹرول میں لانے کے بعد حملہ آور ٹیمیں علاقے میں گھس کر وہاں موجود کسی بھی شخص کو گولی مار دیتیں ، لاشوں کی جانچ کرتیں اور زندہ بچ جانے والے شخص کو بھی ہلاک کر دیتیں انہوں نے کہا کہ یہ ڈھکا چھپا نہیں تھا، سب جانتے تھے جان بوجھ کر ایسے زخمی افراد کو ہلاک کرنا جو خطرہ نہیں ہیں بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہوگی لیکن ایس بی ایس کے سابق اہلکار نے بتایا کہ زخمی افراد کو بھی ہلاک کیا جاتا رہاہے.

انہوں نے ایک آپریشن کے بارے میں بتایا جس کے دوران ایک ڈاکٹر کسی ایسے شخص کا علاج کر رہا تھا جسے گولی لگی تھی لیکن وہ اب بھی سانس لے رہا تھا پھر ہمارا ایک آدمی اس کے پاس آیا‘ ایک دھماکا ہوا‘ اس کے سر میں انتہائی قریب سے گولی ماری گئی تھی یہ ہلاکتیں مکمل طور پر غیر ضروری تھیں. ایس اے ایس کے ایک سابق آپریٹر نے عراق میں ایک آپریشن کے بارے میں بھی بتایا جس کے دوران کسی کو قتل کیا گیا انہوں نے کہا کہ میں دیکھ سکتا تھا کہ بالکل واضح تھا کہ اس سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا وہ مسلح نہیں تھا یہ شرمناک ہے اس میں کوئی پیشہ ورانہ مہارت نہیں ہے انہوں نے کہا کہ قتل کی کبھی بھی مناسب طریقے سے تحقیقات نہیں کی گئیں ایس اے ایس کے سابق فوجی کے مطابق یہ مسئلہ رجمنٹ کے افغانستان منتقل ہونے سے بہت پہلے شروع ہوا تھا اور سینئر کمانڈر اس سے آگاہ تھے.

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سپیشل فورسزکے ارکان کے درمیان ایک طرح کا مقابلہ تھا کہ کس نے کتنے لوگوں کو مارا ایس اے ایس ایک آپریٹر نے بتایا کہ کو ایک افسر نے گولی سے زخمی قیدی کو دوبارہ گولی نہ مارنے کا کہا لیکن پھر اس نے زخمی افغان قیدی کا گلا کاٹ دیا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ جا کر زخمی شخص کو اپنے چاقو سے ختم کرکے اس کا قتل اپنے نام کرنا چاہتا تھا گواہی کے مطابق مبینہ جرائم کا علم چھوٹی ٹیموں یا انفرادی سکواڈرن تک محدود نہیں تھا.

ایک سابق اہلکار نے کہا کہ برطانیہ کی سپیشل فورسز کے کمانڈ ڈھانچے کے اندر ہر کوئی جانتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں ذاتی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہو رہا لیکن ہر کوئی جانتا ہے جو کچھ ہو رہا تھا اس کے لیے واضح منظوری تھی عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ہلاکتوں کی جانچ پڑتال سے بچنے کے لیے ایس اے ایس اور ایس بی ایس کے ارکان مرنے والوں کی لاشوں پر نام نہاد ”ڈراپ ہتھیار“ نصب کرتے تھے تاکہ موقعے پر سپیشل فورسز کی ٹیموں کی جانب سے باقاعدگی سے لی جانے والی تصاویر میں ایسا لگ سکے کہ وہ مسلح ہیں‘وہ اپنے ساتھ ایک جعلی دستی بم لے کر جاتے تھے جو پھٹ نہیں سکتا تھا ایک اور سابق اہلکار سابق اہلکار نے کہا کہ آپریٹرز اے کے47 رائفلیں لے کر جاتے جن میں فولڈنگ سٹاک ہوتا ہے کیونکہ وہ ان کے بیگز میں باآسانی آ جاتی اور اسے کسی لاش کے ساتھ رکھنا آسان ہوتا ہے گواہوں کے مطابق اس کے بعد افسران پوسٹ آپریشنل رپورٹس کو غلط ثابت کرنے میں مدد کرتے تاکہ حملہ کرنے والی ٹیموں کی کارروائیوں کی جانچ پڑتال سے بچا جا سکے.

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکام کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات سے بچنے کے لیے سپیشل فورسزکے لوگوں کو قانونی مشاورت فراہم کی جاتی تھی انہوں نے کہاکہ امریکہ اور فرانس سمیت نیٹو کے دیگر ممالک کے برعکس برطانیہ کے پاس اپنی ایلیٹ سپیشل فورس رجمنٹوں کی کوئی پارلیمانی نگران نہیں ہے سابق ڈائریکٹر آف سروس پراسیکیوشن بروس ہولڈر کے سی نے”بی بی سی “کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ عوامی تحقیقات میں اس چیز کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ اس وقت کے اعلی حکومتی عہدیدار وں کوبرطانوی سپیشل فورسز کی کارروائیوں میں مبینہ شہری ہلاکتوں کے بارے میں کتنا علم تھا.
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات