Live Updates

سویڈن لڑکیوں کے کنوار پن کے ٹیسٹوں پر پابندی کا خواہش مند

DW ڈی ڈبلیو اتوار 18 مئی 2025 17:40

سویڈن لڑکیوں کے کنوار پن کے ٹیسٹوں پر پابندی کا خواہش مند

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2025ء) اس یورپی ملک میں سماجی خدمات کے ذمہ دار ملکی محکمے کا نام سوشل سٹیرلسن ہے۔ اس محکمے کے مطابق سٹاک ہوم حکومت کے متعلقہ وزراء یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں اور خواتین کے 'کنوار پن کی چیکنگ‘ اور 'کنوار پن کے سرٹیفیکیٹ‘ جاری کیے جانے کو جرم قرار دے کر بھاری جرمانوں کا قانون متعارف کرا دیا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایسے طبی آپریشنوں کو بھی قابل سزا جرم قرار دے دیا جائے، جو پھٹ جانے والی ہائمن یا پردہ بکارت کے بحالی کے لیے کیے یا کرائے جاتے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل اور دیگر جرائم کے خطرے کے خلاف بہتر تحفظ فراہم کرنا ہے۔

’ایسے ٹیسٹوں کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں‘

کسی خاتون کا ایسا کوئی ٹیسٹ اس لیے کیا جاتا ہے کہ بظاہر یہ طے کیا جا سکے کہ آیا وہ کنواری ہے۔

(جاری ہے)

اس کے لیے اس کے تولیدی نظام میں اس باریک سے جھلی نما ٹشو کا مشاہدہ کیا جاتا ہے، جسے hymen یا پردہ بکارت کہتے ہیں۔

پاکستان میں اپنی دو بیٹیوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث باپ اسپین میں گرفتار

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ اس عمل کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور یہ جنسی حوالے سے خواتین کے ذاتی وقار کی خلاف ورزی ہے۔ اسی لیے عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں باقاعدہ یہ مطالبہ کیا تھا کہ 'کنوار پن کے ٹیسٹ‘ ممنوع قرار دیے جائیں۔

کنوار پن کے ایسے ٹیسٹ مختلف نوعیت کے ہو سکتے ہیں، جن میں پردہ بکارت کے سائز کی پیمائش لے کر اس کی لچک کا اندازہ لگانا بھی شامل ہیں۔

زیر غور قانون سازی کی اہم بات کیا؟

سویڈش محکمے سوشل سٹیرلسن نے اے ایف پی کو بتایا، ''جو تجاویز تیار کی جا رہی ہیں، ان کا مقصد ایسے اعمال کو قابل سزا بنانا اور ان کے مرتکب افراد کو سزائیں سنانا ہے۔

یعنی ایسا کرنا، جیسا اب تک نہیں ہوتا۔‘‘

سویڈن میں رائج موجودہ ضابطوں کے مطابق ایسے پیشہ ور افراد جو خواتین کے کنوار پن کے نام نہاد ٹیسٹ کرتے ہیں، ان کے خلاف صرف پیشہ وارانہ نوعیت کی تادیبی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

جرمنی، بہن کو قتل کر دینے والے افغان بھائیوں کے لیے عمر قید

ایسے طبی معائنوں سے متعلق حکومت کے ایما پر تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق سویڈن میں کنوار پن کے ٹیسٹ کرانا، اس سے متعلق سرٹیفیکیٹ جاری کیے جانا یا پردہ بکارت کی بحالی کے لیے سرجری جیسی کارروائیاں عام نہیں ہیں۔

تاہم اس رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ بعض اوقات لڑکیوں کو ایسے طبی معائنوں کے لیے بیرون ملک بھی لے جایا جاتا ہے تا کہ ان کے کنواری ہونے یا نہ ہونے کا نام نہاد تعین کر کے ان خواتینن کے خاندان ان کے ساتھ اپنے سلوک کا تعین کر سکیں۔

خواتین کی صحت اور حقوق دونوں کے لیے 'بڑا خطرہ‘

اقوام متحدہ کے یو این ویمن نامی پلیٹ فارم نے کنوار پن کے ایسے ٹیسٹوں کو ایک 'نقصان دہ عمل‘ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رکھا ہے، جو لڑکیوں اور خواتین کی صحت کے ساتھ ساتھ ان کے جنسی اورتولیدی حقوق کے لیے بھی 'بڑا خطرہ‘ ہے۔

سویڈش وزیر مساوات نینا لارسن کہتی ہیں،''عزت کے تصور سے جڑے جبر کی سب سے خاص بات اس کی اجتماعی نوعیت ہے۔ یعنی ایک عورت کی جنسیت کو اس کے پورے خاندان سے متعلق معاملہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘

نینا لارسن نے ابھی حال ہی میں ایک پریس کانفرنس میں بھی کہا تھا، '' یہ خواتین اور نوجوان لڑکیوں کے ذاتی وقار کی سنگین خلاف ورزی ہے۔‘‘

سویڈن کی وزارت مساوات اور وزارت انصاف کی مشترکہ تجویز ہے کہ اس حوالے سے ترمیم کے بعد نیا قانون اس سال یکم دسمبر سے نافذ ہو جانا چاہیے۔

ادارت: مقبول ملک

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات