اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2025ء) یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے جنگوں کی تاریخ لکھ کر اس کو با ضابطہ شکل دی۔ رومی سلطنت جب وسیع ہوئی تو اس کے ہاں بڑی تعداد میں مورخوں نے رومی شہنشاہوں، فوج کے جرنیلوں اور مفتوحہ قوموں کی تعریف لکھی۔ جس کی وجہ سے تاریخ نویسی میں بے حد اضافہ ہوا۔
سولہویں صدی میں رینا سانس (نشاط ثانیہ) کے دور میں اٹلی کی سیاسی حالت انتشار کا شکار تھی۔
اس کی ریاستوں میں باہمی جنگ و جدل ہو رہا تھا۔ اس کے کچھ علاقوں پر فرانس اور آسٹریا کا قبضہ تھا۔اس سیاسی انتشار میں فلورنس کی ریپبلک ترقی یافتہ شکل میں اُبھری۔ رینا ساں کا زمانہ اس کا سنہری دور تھا۔ ریاست کے حکمراں بینکرز اور تاجر تھے۔ انہوں نے اپنے سرمائے سے فلورنس شہر کو کلچر کا مرکز بنایا۔
(جاری ہے)
یہاں آرٹسٹ، مجسمہ تراش، ادیب و شاعر اور ماہر تعمیرات نے اپنے فن اور ہُنر سے شہر کو مالا مال کر دیا۔
ماکیاولی، جو اسی شہر کا رہنے والا تھا، اپنی ابتدائی زندگی میں سیاست میں حصہ لے کر کوشش کی کہ وہ کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرے، مگر سازشوں نے اُسے ناکام بنا دیا۔ اس نے جیل بھی کاٹی، اذیتیں بھی سہیں اور آخر کار اسے اپنی جاگیر پر جلاوطن کر دیا گیا جہاں اس نے بقایا عمر گزاری۔
اگرچہ بار بار اس نے یہ کوشش ضرور کی کہ وہ سیاست میں حصہ لے کر اپنی ذہانت کو ثابت کرے۔
ناکامی کی صورت میں اس نے کتابیں لکھ کر اپنے علم اور صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اس کی تالیفات میں تاریخ فلورنس، آرٹ آف وار، اور رومی مورخ لیوی کی کتاب پر اس کے مکالمات ہیں۔لیکن جس کتاب نے اسے شہرت بخشی وہ دی پرنس ہے، جو اس کی وفات کے پانچ سال بعد سن 1530 میں شائع ہوئی۔ اس کی اپنی زندگی میں کسی نے اس کتاب پر توجہ نہیں دی۔ کتاب کے شائع ہونے کے بعد اس پر زبردست تنقید کی گئی، اور کیتھولِک چرچ نے اسے اپنی ممنوعہ کتابوں میں شامل کر لیا جو 1960ء تک رہا۔
کتاب کے بارے میں دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ ایک یہ کہ اس نے حکمرانوں کو مشورہ دیا ہے کہ انہیں کن اصولوں کی بنیاد پر حکومت کرنی چاہیے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکمرانوں کو سخت اور ظالم ہونا چاہیے۔ تا کہ رعایا میں ڈر اور خوف رہے۔ کسی کو بغاوت کی ہمت نہ ہو۔ لوگوں کی عبرت کے لیے مخالف افراد کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو سر بازار نمائش کے لیے رکھ دینا چاہیے۔
اپنی ہی کامیابی کے لیے حکمرانوں کو معاہدے کی خلاف ورزی، جھوٹے وعدے اور دھوکہ بازی پر عمل کرنا چاہیے۔ مقصد یہ ہو کہ ہر صورت میں کامیابی ضروری ہے۔ لہذا ماکیاولی نے سیاست اور تاریخ سے اخلاقی قدروں کو نکال دیا۔ سیاست میں نیکی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ موقعہ پرستی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
ماکیاولی کی یہ کتاب حکمراں طبقوں میں مقبول رہی۔
کہا جاتا ہے کہ اسکندر، کوئین الزبتھِ اوّل اور نیپولین نے اس کو بار بار پڑھا اور اس پر اپنی زندگی پر لاگو بھی کیا۔اس کتاب کی شہرت روشن خیالی کے عہد میں بھی 17ویں صدی میں ہوئی اور ماکیاولی کو سیاسیات کا بانی قرار دیا گیا۔
اس کتاب کے بارے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ماکیاولی نے جو کچھ بیان کیا ہے اس پر حکمراں پہلے ہی سے عمل کرتے تھے۔
لہذا ماکیاولی اس نے ان کو بے نقاب کیا ہے کہ یہ اپنے اقتدار کے لیے طاقت کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اخلاقی قدروں کی خلاف ورزی کر کے رعایا پر ظلم و ستم کرتے رہے ہیں۔ یہ ان کا اصلی روپ ہے۔ جو اس نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے۔مشرق و مغرب میں مفکرین حکمرانوں کے لیے نصیحت آموز کتابیں لکھتے رہے ہیں۔ بھارت میں چندرگپت موریا کے وزیر کوتلیہ چانکیہ نے ارتھ شاستر نامی کتاب لکھی جس میں اس نے چندرگپت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی کامیابی کے لیے زہر، خنجر اور عورت کا استعمال کرے، تا کہ اس کی حکومت مستحکم رہے۔
کوتلیہ نے اپنی اس کتاب میں سیاست سے اخلاقیات کو علیحدہ کر دیا ہے۔مسلمان دانشوروں نے بھی حکمرانوں کی اصلاح کے لیے کتابیں لکھیں ہیں۔ امیر کیکاؤس کا 'قابوس نامہ‘، نظام الملک طوسی کا'سیاست نامہ‘ اور ضیاء الدین برنی کی کتاب 'فتوائے جہانداری‘ میں حکمرانوں کو کوتلیہ اور ماکیاولی کے برعکس نصیحت کی ہے کہ عدل و انصاف کے ساتھ حکومت کریں۔
ان کا ماڈل ایران کا ساسانی بادشاہ نوشیرواں عادل تھا۔مسلمان دانشوروں نے اخلاقیات کو موضوع پر بھی کئی کتابیں لکھیں ہیں۔ لیکن عملی طور پر حکمرانوں نے ان نصیحت کو ماننے کے بجائے اپنے اقتدار اور مفادات کے تحت حکومت کی۔
لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے سے لیکچر موجودہ دور تک سیاست کا اخلاقی قدروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عوام انصاف کی بات کرتے ہیں مگر طاقتور اور انصاف کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔
طاقتور اور با اختیار حکمراں اپنی کامیابی کے بعد تاریخ میں بھی اعلیٰ مقام حاصل کر لیتا ہے۔وقت کے ساتھ لوگ اس کے سیاسی جرائم کو بھول جاتے ہیں، اور پھر نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ جس میں امیدیں تو دلائی جاتیں ہیں مگر عوام کے لیے اس کا انجام بھی عبرتناک ہوتا ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔