اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 مئی 2025ء) پاکستان میں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں، جہاں اردو قومی اور انگریزی سرکاری زبان ہے۔ تاریخی طور پر اردو اور انگریزی کا امتزاج رہا ہے، جس کے باعث دونوں زبانوں کے درمیان ''کوڈ سوئچنگ‘‘ عام ہے۔ ماہرین کے مطابق، زبانوں کا امتزاج ایک فطری عمل ہے لیکن اردو کی اصل شناخت اور ساخت کو محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔
دو زبانوں کا ملاپ کیوں؟
اسلام آباد میں مصنوعی ذہانت کے طالب علم حاکم علی کا کہنا تھا کہ زبان خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے اور اسے آسان و سادہ ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق اردو ان کی مادری اور انگریزی تدریسی زبان ہے، اس لیے دونوں کا استعمال فطری ہے۔ وہ ''کوڈ سوئچنگ‘‘ کو موثر اور فوری اظہارِ خیال کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
(جاری ہے)
کیا اردو زبان کو خطرہ ہے؟
ادارہ فروغقومی زبان کے سابق سربراہ افتخار عارف نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زبان کا مقصد ابلاغ ہے اور اگر انگریزی الفاظ کے استعمال سے بات بہتر اور واضح ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ تاہم، وہ فیشن یا دکھاوے کے طور پر انگریزی کے بے جا استعمال کو زبان کی لطافت پر اثرانداز ہونے کا باعث سمجھتے ہیں۔
افتخار عارف کے مطابق، اردو ایک ایسی زبان ہے جس کی تشکیل مختلف زبانوں کے امتزاج سے ہوئی ہے۔ اس پر فارسی، عربی، ترکی، سنسکرت اور برصغیر کی دیگر مقامی زبانوں کا گہرا اثر ہے۔ اردو کے افعال، اسما اور محاورات میں کئی الفاظ دیگر زبانوں سے مستعار لیے گئے ہیں۔ مثلاً کچھ الفاظ فارسی و عربی سے آئے،جبکہ موجودہ دور میں انگریزی کے کئی الفاظ اردو میں داخل ہو چکے ہیں، جو فطری عمل ہے۔کوڈ سوئچنگ: فیشن یا ضرورت؟
کامسیٹس کی طالبہ آمنہ رحمن کا کہنا تھا کہ آج کل تقریباً ہر سماجی طبقہ اپنی روزمرہ گفتگو میں انگریزی کے کچھ نہ کچھ الفاظ شامل کرتا ہے۔ خاص طور پر نوجوان فیشن اور جدیدیت کے رجحانات کے تحت غیر ملکی اصطلاحات اور جملے استعمال کرتے ہیں، جو خالص اردو کی جگہ لے کر ایک نئی، جدید زبان کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ فلموں، ڈراموں اور گانوں کے مقبول جملے عموماً ہماری نسل کے نوجوانوں کی گفتگو کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ انگریزی "سلینگ" یا مخصوص جملے فوری تاثرات کے اظہار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ بی بی اے کے طالب علم احمد رضا کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں اردو بولنے والوں کو اکثر کمتر، جبکہ انگریزی بولنے والوں کو ذہین تصور کیا جاتا ہے جو کہ زبان کے ساتھ ناانصافی اور شخصیت کی نظراندازی ہے۔دو زبانوں میں سوچنے والی نسل
اسلام آباد کی رہائشی بائیس سالہ فرینہ عباس کا کہنا تھا کہ وہ بیک وقت اردو اور انگریزی میں سوچتی ہیں۔ انگریزی میں گفتگو کرنا اس لیے زیادہ موثر ہے کیونکہ ملک میں امتحانات اسی زبان میں منعقد کیے جاتے ہیں۔ فرینہ کا مزید کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے روزمرہ کے روابط میں دو یا اس سے زیادہ زبانوں کا استعمال معمول بن چکا ہے۔
نوجوانوں کا یہ خیال تھا کہ اگرچہ اردو اُن کی مادری اور قومی زبان ہے اور اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن تعلیم، نصاب اور مقابلے کے امتحانات میں انگریزی زبان کا غلبہ ہے، جسے جاننا اور سمجھنا وقت کا تقاضا بھی ہے اور آگے بڑھنے کا ذریعہ بھی۔کیا سوشل میڈیا زبان کا نیا معمار؟
طلبہ آمنہ رحمن کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا نے ہمارے اظہار کا انداز بدل دیا ہے اور اس کا اثر زبان پر بھی پڑا ہے۔
آج کل اردو میں انگریزی الفاظ اور محاوروں کا استعمال عام ہو چکا ہے، جو پہلے اتنا نہیں تھا۔ رائے احمد رضا کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا، یوٹیوب اور نیٹ فلکس پر زیادہ تر مواد انگریزی یا ملی جلی زبان میں ہوتا ہے، جس سےاردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اردو ڈراموں کے بولنے کا انداز اور موسیقی کے الفاظ بھی نئی نسل کی زبان کا حصہ بن رہے ہیں۔کیا اردو اور انگریزی کا امتزاج ہماری نئی شناخت؟
چوبیس سالہ طالب علم شہباز شریف کے مطابق، اردو اور انگریزی کا امتزاج قومی شناخت کا حصہ ہے، جو ہمارے تعلیمی، معاشرتی اور پیشہ ورانہ نظام کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انگریزی کا اثر تعلیمی نظام کے ابتدائی مراحل سے ہی نظر آتا ہے اور نوجوان اسے روزگار اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے ضروری سمجھتے ہیں، جبکہ انگریزی سے ناآشنائی بعض اوقات ملازمت کے مواقع میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
بی بی اے کے طلبہ عفیفہ نواز کا کہنا تھا کہ اردو اور انگریزی کا امتزاج ان کی شناخت کا حصہ بن چکا ہے، جو ان کے سماجی اور تعلیمی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ نوآبادیاتی تاریخ، ذرائع ابلاغ کے اثرات اور عالمگیریت نے نہ صرف اظہارِ خیال کے انداز کو متاثر کیا ہے بلکہ ہماری سماجی اقدار اور ثقافتی ترجیحات کو بھی اجاگر کیا ہے۔
زبانوں کا ارتقائی عمل فطری
ممتاز شاعرافتخار عارف کا کہنا تھا کہ زبانیں ہمیشہ ارتقائی عمل سے گزرتی ہیں اور وقت کے ساتھ ان میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ اردو زبان بھی اس فطری عمل سے مستثنیٰ نہیں۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سے انگریزی الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں، جیسے موبائل، ہسپتال، ایمرجنسی، خون کی منتقلی، اور کرکٹ وغیرہ۔ افتخار عارف کے مطابق یہ آمیزش زبان کو کمزور نہیں کرتی، بلکہ زبان کی اس خوبی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ اپنے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔