اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں کی سماعت جمعرات 22مئی تک ملتوی کردی ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں بدھ کو 11 رکنی آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلوں کی سماعت کی۔آئینی بنچ میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس شاہد بلال، جسٹس صلاح الدین پنہور، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
وکیل حامد خان نے عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے سے متعلق متفرق درخواست پر دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق مرکزی کیس کی عدالتی کارروائی براہ راست دکھائی جاتی رہی، مرکزی کیس کی عدالتی کارروائی سے عام عوام بھی آگاہ تھے، اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کی سماعت براہ راست دکھانے کیلئے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست دائر کی۔
(جاری ہے)
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھانے کے فوری بعد فل کورٹ اجلاس طلب کیا، انتظامی فل کورٹ اجلاس کا ایجنڈا یہ تھا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس براہ راست دکھانا چاہئے یا نہیں، فل کورٹ اجلاس میں اکثریت نے رائے دی پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی براہ راست نشریات دکھائی جائیں، بہت سے ججز نے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کرنے کی مخالفت میں بھی رائے دی، فل کورٹ اجلاس میں طے ہوا کہ عدالتی کارروائی کو بطور پائلٹ پراجیکٹ چلایا جائے گا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ میرے اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل دو رکنی کمیٹی بنائی گئی، کمیٹی کو ذمہ داری سونپی گئی کہ براہ راست نشریات کیلئے طریقہ کار طے کیا جائے، دو رکنی کمیٹی نے تمام کمرہ عدالتوں میں براہ راست نشریات کے بندوبست کیلئے تجاویز دیں، ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس کی عدالتی کارروائی بھی سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے دور میں براہ راست دکھائی گئی، براہ راست عدالتی کارروائی سے متعلق دو رکنی کمیٹی کی تجاویز کی فل کورٹ انتظامی اجلاس سے منظوری ہونی تھی، آج تک عدالتی کارروائی براہ راست دکھانے کیلئے فل کورٹ اجلاس میں معاملہ زیر غور نہیں آیا، ابھی بھی وہ پائلٹ پروجیکٹ ہی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ نے ایک یوٹیوب چینل بھی بنایا، یوٹیوب چینل سے دیگر پرائیویٹ ٹی وی چینلز بھی نشریات دکھاتے رہے، پہلا پراجیکٹ پی ٹی وی کے ذریعے براہ راست دکھایا گیا تھا۔ وکیل حامد خان نے موقف اختیار کیا کہ کم از کم پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر منظوری کی مثال تو موجود ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے جس کیس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں اس پر عملدرآمد ہو چکا۔
وکیل حامد خان نے کہا کہ میری عدالت سے درخواست ہے کہ لائیو سٹریمنگ درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جائے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ایسے ہر درخواست کا پہلے فیصلہ نہیں کیا جائے گا، فیصل صدیقی کی بھی درخواستیں ہیں سب کو سن کر فیصلہ کریں گے۔جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا آپ کیا چاہتے ہیں کہ 26ویں ترمیم کیس کے فیصلے کے بعد یہ کیس سنا جائے؟ حامد خان نے موقف اپنایا پہلے 26ویں ترمیم کا فیصلہ کرلیں پھر اس کے بعد تمام کیسز سن لیجئے گا۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے 26ویں ترمیم کا کیس جب لگے گا اس میں یہ دلائل دیجئے گا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی درخواست آگے پہنچا دیں گے جو دستیاب تاریخ ممکن ہوئی اس پر کیس لگایا جائے گا۔ وکیل حامد خان نے موقف اپنایا جب بنچ پر اعتراض کی درخواست پر نمبر لگ جائے گا تو پھر اس پر دلائل دوں گا۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ پہلے درخواست پر نمبر تو لگ جائے پھر اس کو بھی دیکھ لیتے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا اس درخواست میں آپکی استدعا کیا ہے؟ وکیل حامد خان نے بتایا کہ اس میں بینچ کو دوبارہ سے تشکیل دینے کیلئے استدعا کی گئی ہے، اس درخواست پر جو اعتراضات ہیں اس پر اپیل دائر کر دی ہے۔ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات کیخلاف اپیل جہاں فکس ہونی ہوگی وہیں پر ہوگی۔ دوران سماعت مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے 14 مارچ 2024 کو فیصلہ دیا، 12 جولائی کو سپریم کورٹ نے مختصر حکمنامہ دیا، 18 جولائی کو نظرثانی اپیلیں آنا شروع ہوئیں، 23 ستمبر کو تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا، 21 اکتوبر کو 26ویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، جب آرٹیکل 191 اے نہیں تھا اس وقت نظرثانی اپیلیں آرٹیکل 188 کے تحت دائر ہوئیں۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے استفسار کیا کہ کیا آج بھی سپریم کورٹ رولز کا اطلاق ہوتا ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا آئین کے واضح آرٹیکل 191اے کے ہوتے ہوئے رولز کو فوقیت نہیں دی جاسکتی، اگر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد رولز اس سے مطابقت رکھتے ہوں تو انھیں ضرور دیکھا جانا چاہیے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے یہ تو سیاسی کیسز ہیں چلتے رہیں گے، پتہ نہیں کل ان کیسز سے کیا فیصلے ہوتے ہیں،ہم تو عام سائلین کے کیسز کیلئے اصول طے کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
مخدوم علی خان نے موقف اپنایا جب تک رولز نہیں بن جاتے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی شق 2 اے اور آرٹیکل 191 اے کے تحت کم از کم پانچ رکنی آئینی بینچ ہی کیس سنے گا، بینچ کی عددی تعداد 13 نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا، مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی اپیلیں سننے والا بینچ 13 رکنی ہی ہے، دو ججز نے اختلافی نوٹ میں بینچ سے الگ ہونے کا نہیں کہا، اختلافی نوٹ والے دو ججز نے اپنا الگ فیصلہ لکھا۔ بعد ازاں عدالت نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس کی سماعت جمعرات 22مئی ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔