مخصوص نشستوں کا کیس؛ نظرثانی اپیلوں کی سماعت براہِ راست دکھائی جائے گی، حکم نامہ جاری

سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت لائیو نشر کرنے سے متعلق درخواست منظور کرلی

Sajid Ali ساجد علی جمعرات 22 مئی 2025 14:49

مخصوص نشستوں کا کیس؛ نظرثانی اپیلوں کی سماعت براہِ راست دکھائی جائے ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 22 مئی 2025ء ) سپریم کورٹ آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی اپیلوں کی سماعت براہ راست دکھانے کا حکم دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست منظور کرلی، جس کے بعد اب مخصوص نشستوں کے کیس پر 12 جولائی کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت لائیو دکھائی جائے گی، اس ضمن میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے حکم نامہ بھی جاری کر دیا، عدالت نے کیس کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو لائیو سٹریمنگ کے انتظامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی۔

بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں مخصوص نشستوں کی نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی جہاں 12 جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکلا مخدوم علی خان نے آج دلائل دیئے اور مؤقف اپنایا کہ ’آئین کے آرٹیکل 191 اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے ہوئے اس بینچ پر 1980ء کے رولز کا اطلاق نہیں ہوتا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’آپ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980ء کے کون سے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے؟‘۔

(جاری ہے)

وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ’نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980ء کے رولز مطابقت نہیں رکھتے، نئی آئینی ترمیم میں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے، 1980ء کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بینچ کیا کرتا تھا، اب 26 ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بینچ کرے گا، اس بینچ میں ججز کی تعداد کے حوالے سے اعتراض کیا، میری نظر میں یہ 11 نہیں 13 رکنی بینچ ہے، اس 13 رکنی بینچ میں سے 7 ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اس کیس کی براہ راست نشریات کے حوالے سے درخواست دائر کی گئی، میری رائے میں یہ اس عدالت کا فیصلہ ہوگا کہ براہ راست نشریات ہوں گی یا نہیں، اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں، دوسری درخواست تھی کہ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے، کون سا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کا اختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں، فرض کریں اگر عدالت یہ درخواست منظور کرکے کیس کی سماعت ملتوی کرتی ہے تو پھر یہ آئینی بینچ 26 ویں ترمیم کے فیصلے تک دیگر کوئی درخواستیں بھی نہیں سن سکے گا اور کل کو دیگر کیسز کی درخواست گزار بھی اسی خواہش کا اظہار کریں گے‘۔

اس موقع پر بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ ’ہم 10 منٹ کی مشاورت کے بعد دوبارہ آتے ہیں‘، اور جب آئینی بینچ اٹھنے لگا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے اور استفسار کیا کہ ’کیا 26 ویں آئینی ترمیم کے جواب جواب الجواب کا حق ختم کردیا گیا ہے؟‘، اس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ ’آپ نے درخواست دی اس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیئے، آپ کیا جواب الجواب کرنا چاہتے ہیں؟‘، فیصل صدیقی نے بتایا کہ ’اگر 26 ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب ختم ہوگیا ہے تو ہمیں بتا دیا جائے، میں خواجہ حارث جتنا وقت تو نہیں لوں گا جواب الجواب میں مگر مناسب وقت چاہیئے‘۔

اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ’سنی اتحاد کونسل کا اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا، چلتے ہوئے کیس میں اعتراضات کی درخواستیں دائر کی گئیں‘، جس پر فیصل صدیقی نے سوال کیا کہ ’پھر ہمیں کیوں اس کیس میں فریق بنایا گیا؟‘، جس پر جسٹس امین الدین خان نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایک سینئر وکیل ہیں آپ کا رویہ ناقابل قبول ہے، آپ مخدوم علی خان سے نہیں ہم سے مخاطب ہوں، چلیں ہم آپ کو فئیر ٹرائل کا موقع دیتے ہیں‘، بعدازاں عدالت نے وکلاء کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت میں قفہ کرلیا۔