سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی

جمعرات 22 مئی 2025 22:10

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2025ء) مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی متفرق درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا،عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیدی،سپریم کورٹ نے بنچ کی تشکیل پر اعتراضات کی درخواستیں مسترد کردیں۔عدالت نے مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت 26ویں آئینی ترمیم کی درخواستوں کے فیصلے کے بعد سماعت کرنے کی درخواست بھی مسترد کردی،عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی حکم نامہ بعد میں جاری کیا جائیگا، عدالت نے سپریم کورٹ آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو لائیو سٹریمنگ کے انتظامات کرنے کا حکم دیدیا۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستوں کے کیس کی سماعت بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھے گی،جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی لارجر بنچ نے جمعرات کوسماعت شروع کی تو12جولائی کے فیصلے کی متاثرہ خواتین کے وکیل مخدوم علی خان کے سنی اتحاد کونسل کے اعتراضات پر دلائل مکمل ہو گئے۔

(جاری ہے)

وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ آرٹیکل 191اے اور پریکٹس پروسیجر ایکٹ کے ہوتے بنچ پر 1980کے رولز اپلائی نہیں ہوتے،جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ بتائیں سپریم کورٹ کے 1980کے کون سے رولز نئی آئینی ترمیم سے مطابقت نہیں رکھتے،مخدوم علی خان نے کہاکہ نظرثانی درخواستوں کی سماعت کی حد تک 1980کے رولز مطابقت نہیں رکھتے،نئی آئینی ترمیم میں آئینی بنچ کے دائرہ اختیار کا تعین کیا گیا ہے،1980کے رولز کے تحت نظرثانی پر سماعت پرانا بنچ کیا کرتا تھا، اب 26ویں ترمیم کے بعد آئینی تشریح کے مقدمات کی نظرثانی آئینی بنچ کرے گا، اس بنچ میں ججز کی تعداد سے متعلق اعتراض کیا، میری نظرمیں یہ 11نہیں 13رکنی بنچ ہے،اس 13رکنی بنچ میں سے 7ججز کی اکثریت نظرثانی پر فیصلہ کرے گی،اس کیس کی براہ راست نشریات سے متعلق درخواست دائر کی گئی ،اگر عدالت براہ راست نشریات کا فیصلہ کرے بھی تو کوئی اعتراض نہیں،دوسری درخواست تھی 26ویں ترمیم کے فیصلے تک اس کیس کو ملتوی کیا جائے،کون سا کیس کب لگنا ہے یہ طے کرنا اس عدالت کااختیار ہے، کسی کی خواہش نہیں،درخواست منظور اور سماعت ملتوی ہو تو پھر یہ آئینی بنچ کوئی درخواست نہیں سن سکے گا، پھر یہ آئینی بنچ 26ویں ترمیم کے فیصلے تک کوئی درخواست نہیں سن سکے گا، کل کو دیگر Dکیسز کی ددرخواست گزار بھی اسی خواہش کااظہار کریں گے۔

فیصل صدیقی نے استفسار کیا کہ کیا 26 ویں آئینی ترمیم کے جواب جواب الجواب کا حق ختم کردیا گیا ہی جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست دی اس پر مخدوم علی خان نے دلائل دیے، آپ کیا جواب الجواب کرنا چاہتے ہیں فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر 26 ویں ترمیم کے بعد جواب الجواب ختم ہوگیا ہے تو ہمیں بتا دیا جائے، میں خواجہ حارث جتنا وقت تو نہیں لوں گا جواب الجواب میں مگر مناسب وقت چاہیے۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا اس کیس میں حق دعویٰ نہیں بنتا، چلتے ہوئے کیس میں اعتراضات کی درخواستیں دائر کی گئیں۔فیصل صدیقی نے اونچی آواز میں سوال کیا کہ پھر ہمیں کیوں اس کیس میں فریق بنایا گیا جس پر جسٹس امین الدین خان نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ایک سینئر وکیل ہیں آپ کا رویہ ناقابل قبول ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہاکہ فیصل صدیقی صاحب آپ مخدوم علی خان سے نہیں ہم سے مخاطب ہوں، چلیں ہم آپ کو فئیر ٹرائل کا موقع دیتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے خلاف نظرثانی کیس کی سماعت 26 مئی تک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ یہ متفرق درخواستیں سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جس میں بینچ پر اعتراض اور کارروائی براہ راست نشر کرنے کی درخواستیں شامل ہیں۔اس کے ساتھ، 26ویں ترمیم کیس کا فیصلہ مخصوص نشستوں کے کیس سے پہلے کرنے کی درخواست بھی دائر کی گئی۔

درخواست کے مطابق طے شدہ اصول ہے کہ نظرثانی وہی بینچ سنتا ہے جس نے فیصلہ کیا ہو جبکہ نظرثانی میں ججز کی دستیابی کے باوجود نیا بینچ تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔متفرق درخواست کے مطابق مخصوص نشستوں کا کیس سننے والا بینچ سپریم کورٹ رولز کے خلاف تشکیل دیا گیا، نیا بینچ بننے سے نظرثانی اور اپیل میں فرق ختم کر دیا گیا، بینچ میں شامل دو ارکان کو نکالنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔

درخواست میں کہا گیا کہ 13 رکنی بینچ کے فیصلے پر نظرثانی 11 ججز کیسے سن سکتے ہیں آئینی بینچ کی تشکیل 26ویں ترمیم کے نتیجے میں ہوئی اور 26ویں ترمیم کے خلاف مقدمات زیر التوائ ہیں، 26ویں ترمیم کی آئینی حیثیت کا تعین ہونے تک نظرثانی پر سماعت ملتوی کی جائے۔درخواست میں استدعا کی گئی کہ اہم ترین کیس ہے عدالتی کارروائی براہ راست نشر کی جائے، نظرثانی کیس پر سماعت کے لیے مخصوص نشستوں کے کیس کا اصل بینچ تشکیل دیا جائے، 26ویں ترمیم اور آئینی بینچ کی قانونی حیثیت کا تعین ہونے تک سماعت ملتوی کی جائے۔