ججز ٹرانسفر کیس،درخواست گزار ججز کے وکلا نے عدالت کو تمام باتیں نہیں بتائیں، جسٹس محمد علی مظہر

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل نے ججز ٹرانسفر کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی

منگل 27 مئی 2025 19:40

�سلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 مئی2025ء)سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں اٹارنی جنرل نے ججز ٹرانسفر کے خلاف درخواستیں خارج کرنے کی استدعا کردی ہے جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں، ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کا درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفرنگ ججز کی نئی تقرری نہیں ہوئی، ٹرانسفر پر آئے ججز کو نئے حلف کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ قرار دے چکی ہے کہ سنیارٹی تقرری کے دن سے شروع ہوگی۔

(جاری ہے)

جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ سیکریٹری لا نے ٹرانسفرنگ ججز کی حلف نہ اٹھانے کی وضاحت کیوں دی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ وضاحت کی وجہ یہ تھی کہ ایڈوائس کی منظوری کے بعد ججز کے نوٹی فکیشن میں ابہام نہ ہو۔اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ججز کی سنیارٹی کا تعین چیف جسٹس عامر فاروق نے کیا، جسٹس عامر فاروق سنیارٹی کے تعین میں مکمل آزاد تھے، 4 ہائی کورٹ کے چیف جسٹسز اور رجسٹرار کی رپورٹ میں ججز تبادلہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا، 5 ججز کی ریپریزنٹیشن پر جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی ریپریزنٹیشن اور فیصلے کا درخواست گزار وکلا نے دلائل میں ذکر تک نہیں کیا، جسٹس شکیل احمد نے کہا کہ کسی نے ریپریزنٹیشن اور فیصلے کو پڑھا نہ ہی دلائل دیے، جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ریپریزنٹیشن میں اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی استدعا کیا تھی اٹارنی جنرل نے کہا ججز نے ٹرانسفرنگ ججز کی دوبارہ حلف اٹھانے پر سنیارٹی کے تعین کی استدعا کی تھی، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت کو درخواست گزار ججز کے وکلا نے تمام باتیں نہیں بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 میں ججز ٹرانسفرز کا طریقہ واضع ہے، ججز ٹرانسفرز کے معاملے پر ویٹو پاور عدلیہ کو دی گئی ہے، ایگزیکٹیو کو نہیں، ججز ٹرانسفرز کے وقت تمام چیف جسٹسز نے اپنی آمادگی ظاہر کی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی کے معاملے پر کسی چیف جسٹس سے رائے نہیں لی گئی، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا سنیارٹی کوئی ایسا معاملہ نہیں تھا جو چیف جسٹسز کے علم میں لایا جاتا، سنیارٹی کے معاملے کو طے کرنا اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کا اختیار تھا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کے حوالے سے کونسا اصول اپنایا جائے گا، آئین خاموش ہے، اس معاملے میں کونسا اصول اپنایا گیا کہ جسٹس سرفراز ڈوگر کو ٹرانسفر کے لیے چنا گیا جسٹس ڈوگر لاہور ہائی کورٹ میں سنیارٹی میں 15ویں نمبر پر اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں پہلے پر آگئے۔جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ ججز دیگر ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہوکر آئے تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سنیارٹی طے کرنے کے مجاز نہیں تھے، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ججز اسلام آباد ہائی کورٹ ٹرانسفر ہوچکے تھے، لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہی مجاز تھے۔

جسٹس صلاح الدین نے ریمارکس دیے کہ ٹرانسفر شدہ ججز اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز ہیں یا پرانی ہائیکورٹس کے، یہ ابھی طے ہونا ہے، جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب 3 سوالات پر عدالت کی معاونت کیجیے، اگر یہ ٹرانسفرز مستقل ہیں تو ججز تعیناتی آئین کے آرٹیکل 175 اے کے ذریعے ہوتی ہے، بلوچستان ہائی کورٹس سے جو ججز ٹرانسفر ہوئے وہ ایڈیشنل جج ہیں، ایڈیشنل ججز کی مستقل ہونے کے لییکارکردگی کون جانچے گا، بلوچستان ہائی کورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ کا چیف جسٹس سنیارٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ دیگر ہائی کورٹس سے ججز ٹرانسفر کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی انتظامی کمیٹی پر کیا اثر پڑا ہی اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 175 اے شامل ہوا، آئین سازوں نے آرٹیکل 200 کو نہیں نکالا، یہ قابل قبول نہیں کہ آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا آرٹیکل 200 پر تبادلہ نہیں ہو سکتا۔

جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیے کہ ججز کا تبادلہ آرٹیکل 200 کے تحت عوامی مفاد میں ہوگا، یہاں ججز کے تبادلے میں عوامی مفاد کیا تھا نوٹی فکیشن میں اس کا ذکر نہیں، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز کے ٹرانسفر پر سیفٹی وال لگا ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی سیکشن ایک اور دو کو ایک ساتھ پڑھا جائی کیا آرٹیکل 200 کے ذیلی شق 2 کے تحت تبادلہ عبوری نہ ہوگا اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ جج کا تبادلہ عارضی ہوگا، ذیلی سیکشن کے تحت اضافی الاؤنسز ملیں گے، جج کا تبادلہ مستقل ہو گا تو کوئی اضافی الاؤنس نہیں ملے گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ذیلی سیکشن کی زبان واضح نہیں ہے، ججز ٹرانسفر کے نوٹی فکیشن میں مستقل یا عارضی ٹرانسفر کا ذکر نہیں۔ اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ٹرانسفرنگ ججز میں سے کسی نے عارضی یا مستقل ٹرانسفر کا اعتراض نہیں اٹھایا، ٹرانسفرنگ ججز سے مستقل ٹرانسفر کی رضامندی لی گئی۔دوران سماعت آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن اجلاسوں کے منٹس آف میٹنگ طلب کر لے، جسٹس نعیم اختر افغان نے ہدایت کی کہ 17 جنوری اور 10 فروری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس کے منٹس آف میٹنگ دیے جائیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا ان اجلاسوں میں کیا ہوا تھا اٹارنی جنرل نے کہا 17 جنوری کے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں 2 ایڈیشنل ججز کی تقرری ہوئی، 10 فروری کے اجلاس میں جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں تقرری ہوئی۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا 10 فروری کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی ججز لسٹ میں جسٹس ڈوگر بھی شامل تھی اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا جی بالکل وہ لسٹ میں شامل تھے مگر ان کے نام پر غور نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل نے ججز سنیارٹی کیس میں دلائل مکمل کرتے ہوئے ججز کے تبادلے کے خلاف درخواستیں میرٹ پر مسترد کرنی کی استدعا کردی اور کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی درخواست میرٹ پر مسترد کی جائے، جبکہ دیگر درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کیا جائے۔عدالت نے کیس کی سماعت 29 مئی تک ملتوی کردی۔ آئندہ سماعت پر درخواست گزار ججز کے وکیل جواب الجواب دلائل دیں گے۔