{پاکستان کو نظریاتی یوم تکبیر کی بھی اشد ضرورت ہے،تنظیم اسلامی

منگل 27 مئی 2025 20:25

.حیدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 مئی2025ء) پاکستان کو نظریاتی یوم تکبیر کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ بات تنظیم اسلامی کے نائب امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ 28 مئی 1998 کا دن، پاکستان کے جغرافیائی دفاع اور عسکری حیثیت کو ناقابل تسخیر بنانے کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب حکومت اور دیگر ریاستی اداروں نے طاغوتی قوتوں کے شدید دباو کے باوجود ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا اور پاکستان نے بھارت کے ایٹمی تجربات کے جواب میں اپنی ایٹمی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ کیا جس سے نہ صرف بھارت بلکہ امریکہ اور اسرائیل سمیت تمام طاغوتی قوتوں میں صف ماتم بچھ گئی۔

امتِ مسلمہ نے پاکستان کے باضابطہ ایٹمی طاقت بن جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اِس جرات مندانہ قدم نے پاکستان کو بھارت کی جانب سے کسی ایٹمی حملے سے محفوظ کر دیا اور خطے میں طاقت کے توازن کو کسی حد تک بحال کر دیا جس کا مظاہرہ حالیہ پاک بھارت جھڑپوں اور آپریشن بنیان مرصوص میں بھی دیکھنے میں آیا ۔ انہوں نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ 28مئی1998 کے بعد پاکستان اپنی اصل منزل یعنی ملک میں حقیقی معنوں میں اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے نفاذ کی طرف بڑھتا لیکن گزشتہ اڑھائی دھائیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت نے ملک میں نفاذِ دینِ اسلام کے معاملہ میں مزید پسپائی اختیار کی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

مقتدر حلقوں نے آئین اور قانون کو پاوں تلے روندتے ہوئے نہ صرف ملکی سیاست میں مداخلت کی بلکہ قانون اور عدالتی عمل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کارروائیاں کیں جس سے خصوصا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے عوام میں ناراضگیاں بھی پیدا ہوئیںاور مخصوص اداروں کی من مانیوں سے مفقود الخبر افراد کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ آج حال یہ ہے کہ وطنِ عزیز سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے جس کا دشمن بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔

ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سویٹ یونین جیسی عظیم ایٹمی طاقت اس لیے شکست و ریخت کا شکار ہوئی کیونکہ اس نے اپنی نظریاتی اساس سے انحراف کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی بقا اور سلامتی بھی نظریہ پاکستان کو عملی تعبیر دینے میں مضمر ہے۔ لہذا اسلامی نظامِ عدلِ اجتماعی کے قیام کی جدوجہد نہ صرف ہماری اخروی نجات کے لیے لازم ہے بلکہ دنیوی استحکام کے لیے بھی ناگزیر ہے۔