دبئی عرب میڈیا فورم: "مصنوعی ذہانت— خفیہ ہتھیار یا ڈراؤنا خواب؟" کے عنوان سے خصوصی نشست شرکاء کی توجہ کا محور

بدھ 28 مئی 2025 15:33

دبئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 28 مئی2025ء) عرب میڈیا فورم کے دوران منعقد ہونے والا سیشن ’’مصنوعی ذہانت: خفیہ ہتھیار یا ڈراؤنا خواب؟‘‘نے شرکا کی گہری توجہ حاصل کی اور متحدہ عرب امارات، بالخصوص دبئی کی اس جدت انگیز ٹیکنالوجی کے امکانات سے بھرپور استفادہ کرنے کی تازہ ترین کوششوں کو اجاگر کیا،یہ سیشن دبئی میڈیا کونسل کی زیر نگرانی عرب میڈیا سمٹ 2025 کے حصے کے طور پر منعقد ہوا، جس میں دبئی کی اقتصادی و سیاحتی امور کی اتھارٹی میں مصنوعی ذہانت کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ڈاکٹر مروان الزرعونی اور دبئی فیوچر فاؤنڈیشن میں پروجیکٹس کے ڈائریکٹر حمد الشروای نے شرکت کی ۔

اماراتی خبر رساں ادارے "وام " کی رپورٹ کے مطابق سیشن کے آغاز میں ڈاکٹر الزرعونی نے واضح الفاظ میں کہاکہ مصنوعی ذہانت یہاں رہنے کے لیے آئی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات اس ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کر رہا ہے اور یہ سفر ابھی محض شروعات ہے۔ میڈیا کے شعبے میں بھی اقتصادی اقدامات کے ذریعے مواد تیار کرنے والوں کے لیے ویلیو چین تشکیل دی جا رہی ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مصنوعی ذہانت کی دنیا میں شامل ہونے کے لیے ابھی بھی دیر نہیں ہوئی، کیونکہ آن لائن پلیٹ فارمز اور مقامی اقدامات کے ذریعے مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔ ان کے مطابق ہر فرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو زندگی کے ہر پہلو میں بہترین انداز میں بروئے کار لائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دبئی میں مختلف سرکاری ادارے اس بات کے ثبوت فراہم کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کس طرح صحت، پراپرٹی ٹیکنالوجی، لاجسٹکس اور پائیدار مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں کارکردگی کو بہتر بناتی ہے۔

تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ مصنوعی ذہانت استعمال کرنے والوں اور نہ کرنے والوں کے درمیان فاصلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے۔ صارفین کو بہتر، تفصیلی اور بڑے پیمانے پر مواد کی فراہمی کا فائدہ حاصل ہو گا، جبکہ غیر صارفین پیچھے رہ جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں "وائب کوڈنگ" کا رجحان بڑھے گا، جس میں ایک فرد پر مشتمل اسٹارٹ اپ بھی کم خرچ اور کم افرادی قوت کے ساتھ بھرپور انداز میں کام کر سکے گا۔

اس موقع پر حمد الشروای نے دبئی اور متحدہ عرب امارات کے وژن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ سرکاری اداروں کے ساتھ مسلسل شراکت کے ذریعے مصنوعی ذہانت کے بہترین استعمالات کو دستاویزی شکل دی جا رہی ہے۔ انہوں نے دبئی پولیس کی مثال دی جہاں گمشدہ اشیاء کی بازیابی کے معاملات میں مصنوعی ذہانت کے استعمال سے 300 فیصد بہتری آئی ہے۔ ایک ایسا کام جو انسانی غلطیوں کا شکار ہو سکتا تھا، اب تیزی سے اور بہتر انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دبئی میں تبدیلی لانے کے دوران عوام کی شمولیت کو یقینی بنانا ہمیشہ اولین ترجیح رہی ہے، جیسا کہ مصنوعی ذہانت کے معاملے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے پہلے انٹرنیٹ نے خدشات کو جنم دیا تھا، اسی طرح مصنوعی ذہانت پر بھی سوالات ہیں، لیکن وقت کے ساتھ لوگ اسے اپنا لیں گے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ چیلنجز کو سمجھنا اور پیداوری فوائد حاصل کرنا ضروری ہے، اور دبئی اس وقت اختراعات کے لیے دنیا کا بہترین مقام ہے۔

انہوں نے ’’ون ملین پرامپٹرز‘‘ کے اقدام کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ اس کا مقصد مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی بنیادی سطح کو بلند کرنا اور مختلف شعبوں سے وابستہ بہترین تجربات کی بنیاد پر ماہرین کی تیاری ہے۔اپنے اختتامی کلمات میں حمد الشروای نے کہا کہ مصنوعی ذہانت اب خفیہ ہتھیار نہیں رہی بلکہ ہر فرد کے لیے ضروری ہتھیار بن چکی ہے، اور اس سے فائدہ اٹھانا یا نہ اٹھانا،یہ فیصلہ اب ہر فرد کے ہاتھ میں ہے۔ لیکن اگر اس سے دوری اختیار کی گئی تو یہ واقعی ایک ’’ڈراؤنا خواب‘‘ ثابت ہو سکتی ہے۔