اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 اگست 2025ء) بنگلہ دیش رواں ہفتے پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر تجارت جام کمال خان کی میزبانی کر رہا ہے، جو کئی برسوں میں سب سے اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد ہے۔ یہ دورہ 1971ء میں سابق مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے اور اس دوران ہونے والی خونریزی کے بعد سے متاثرہ تعلقات کو دوبارہ استوار کرنے اور بدلتے ہوئے علاقائی طاقت کے توازن کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
پاکستانی وزیر تجارت جام کمال خان جمعرات کو ڈھاکہ پہنچے، جبکہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی آمد ہفتے کو متوقع ہے۔بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ لڑنے والے سید ابو ناصر بختیار احمد، جو پیشے کے لحاظ سے بینکر ہیں، ڈھاکہ اور اسلام آباد کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت کو محتاط حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔
(جاری ہے)
سن 1971ء میں بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں بختیار احمد کے کئی دوست پاکستانی فوجیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
79 سالہ بختیار احمد نے 1971ء کی جنگ کا، جب مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا، ذکر کرتے ہوئے کہا، ''وحشت کی کوئی حد نہ تھی۔‘‘ جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور پاکستانی فوج پر وسیع پیمانے پر مظالم کے الزامات عائد کیے گئے۔
انہوں نے کہا، ''میں چاہتا تھا کہ ذمہ دار افراد پر مقدمہ چلایا جائے، جنہوں نے میرے چھ دوستوں کو قتل کیا۔
تاہم میں ان لوگوں کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے خلاف نہیں، جو جنگ کے مخالف تھے اور مظالم میں براہ راست ملوث نہیں تھے۔‘‘تاریخی دشمنی اور نئے مواقع
دونوں مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان رابطے طویل عرصے تک صرف ثقافتی سطح پر محدود رہے، جیسے کہ کرکٹ، موسیقی اور پاکستانی سوتی کپڑوں سے بنے شلوار قمیض کے مشترکہ شوق تک۔
بنگلہ دیش نے بھارت پر زیادہ انحصار کیا، جو اس 17 کروڑ آبادی والے ملک کو تقریباً گھیرے ہوئے ہے۔تاہم گزشتہ سال ڈھاکہ میں ایک عوامی بغاوت نے بھارت کی اتحادی شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹا دیا، جس سے بنگلہ دیش کے نئی دہلی کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے اور اسلام آباد کے ساتھ بات چیت کا راستہ کھل گیا۔
امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں، ''بنگلہ دیش بھارت کا قریبی شراکت دار رہا ہے اور اب یہ بھارت کے سب سے بڑے حریف کے ساتھ رابطے بڑھا رہا ہے۔
‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت، جس نے مئی میں پاکستان کے ساتھ چار روزہ جنگ لڑی، اس پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔تجارتی اور سفارتی پیش رفت
پاکستان اور بنگلہ دیش نے گزشتہ سال سمندری تجارت شروع کی اور فروری میں حکومتی سطح پر تجارت کو وسعت دی۔ نیویارک میں مقیم بین الاقوامی تعلقات کے ماہر عظیم خالد کہتے ہیں، ''یہ ایک نئے اسٹریٹجک تعاون کا ظہور ہے، جو بھارتی اثر و رسوخ کو کم کرتا ہے جبکہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تعاون کے محور کو مضبوط بناتا ہے۔
اگر یہ رجحان جاری رہا تو یہ جنوبی ایشیا کے جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی ڈھانچے کو نئی شکل دے سکتا ہے۔‘‘نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی زیر قیادت بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اس بات پر برہم ہے کہ شیخ حسینہ بھارت فرار ہو گئیں اور وہ انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کا جواب دینے کے احکامات کی تعمیل سے انکار کر رہی ہیں۔
بنگلہ دیش: انقلاب کے بعد پاکستان اور چین کی طرف جھکاؤ، بھارت سے تناؤ
انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے تجزیہ کار تھامس کین بتاتے ہیں، ''یونس کی قیادت میں اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں اضافہ ہوا ہے، تجارتی تعلقات وسعت پا رہے ہیں، ویزا قوانین میں نرمی پر اتفاق ہوا ہے اور محدود فوجی تعاون بھی شروع ہو چکا ہے۔
‘‘مفاہمت کے راستے میں رکاوٹیں
مفاہمت کے باوجود چیلنجز موجود ہیں۔ بنگلہ دیش میں 1971 کے ''قتل عام‘‘ کے لیے پاکستان سے معافی مانگنے کا مطالبہ مقبول ہے لیکن اسلام آباد کے صنوبر انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے خارجہ پالیسی کے ماہر قمر چیمہ کا خیال ہے کہ پاکستان اس کی تعمیل نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا، ''پاکستان کا بنگلہ دیش کے ساتھ رابطہ تب ہی ممکن ہے، جب بنگلہ دیش تعلقات بحال کرنے میں تاریخی دشمنی کو شامل نہ کرے۔
‘‘ڈھاکہ میں امور خارجہ کے مشیر محمد توحید حسین سے، جب یہ پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش عوامی معافی کا معاملہ اٹھائے گا تو ان کا کہنا تھا، ''تمام مسائل میز پر رکھے جائیں گے۔‘‘
بنگلہ دیش کی عدالتیں کئی ایسے افراد کو سزائیں سنا چکی ہے، جن پر 1971ء کی جنگ کے دوران پاکستانی فوج کی مدد سے ''بنگالیوں کی نسلی کشی‘‘ میں سہولت کاری کا الزام ہے۔
بنگلہ دیش کی جہانگیر نگر یونیورسٹی کے ماہر بشریات سعید فردوس کہتے ہیں، ''جب تک زخم کھلا رہے گا، تعلقات پائیدار نہیں ہو سکتے۔‘‘بنگلہ دیشی ماہر تعلیم میگھنا گوہاٹھاکُرتا نے، جن کے والد پاکستانی فوج کے ہاتھوں مارے گئے، کہا، ''ایک متاثرہ شخص کے طور پر، میں دوطرفہ تعلقات کی گرمجوشی کو قبول نہیں کر سکتی، جب تک کہ پاکستان کچھ شرائط پوری نہ کرے۔
‘‘ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد حکومت جنگ سے متعلق تمام معلومات کو عام کرے۔تاہم ڈھاکہ یونیورسٹی سے ریٹائرڈ پروفیسر گوہاٹھاکُرتا اس بات کو تسلیم کرتی ہیں کہ ''پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھنا فطری ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ساتھ وہ جغرافیائی سیاسی جہتوں کو بھی قبول کرتی ہیں۔
تاہم آئندہ برس فروری میں ہونے والے انتخابات کے بعد بنگلہ دیش اور پاکستان کے مابین تعلقات کی نوعیت ایک بار پھر بدل سکتی ہے۔ کوگلمین کہتے ہیں، ''اگر آئندہ حکومت بھارت کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے لیے تیار ہوئی اور دہلی بھی اس کا جواب دینے کو تیار رہا، تو اسلام آباد کے ساتھ تعلقات میں اضافہ متاثر ہو سکتا ہے۔‘‘
ادارت: افسر اعوان