Live Updates

امداد یا موت: غزہ: کے ایک بے گھر خاندان کی تکلیف دہ کہانی

یو این پیر 2 جون 2025 01:15

امداد یا موت: غزہ: کے ایک بے گھر خاندان کی تکلیف دہ کہانی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 جون 2025ء) زینت غزہ کی ان ہزاروں ماؤں میں سے ایک ہیں جن کے بچے ان دنوں اکثر بھوکے سوتے ہیں۔ کبھی انہیں کہیں سے کچھ کھانے کو مل جاتا ہے اور کبھی وہ بھوک سے بلبلاتے اپنے بچوں کو پانی کے علاوہ کچھ نہیں دے پاتیں۔

وہ اپنے شوہر مومن ابو عصر کے ساتھ غزہ کے ساحلی علاقے میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ میں رہتی ہیں۔

کبھی یہ جگہ آرام اور تفریح کا مقام ہوا کرتی تھی جو اب اسرائیل کی متواتر بمباری سے جان بچانے کے لیے کئی مرتبہ بے گھر ہونے والوں کی آخری پناہ بن گئی ہے۔

اس جگہ چار سو پھیلے بوسیدہ خیمے، لوگوں کا ہجوم اور رہن سہن کے بدترین حالات اُس انسانی بحران کی شدت کا پتا دیتے ہیں جس نے تقریباً 20 ماہ سے غزہ کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

(جاری ہے)

جنگ سے پہلے یہ ساحلی علاقہ ماہی گیری کی سرگرمیوں کا مرکز تھا لیکن اب یہ تباہی کی تصویر بن چکا ہے۔

سمندر کے کنارے کھڑی تمام کشتیاں تباہ ہو گئی ہیں، یہاں سے وہاں عارضی خیموں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا جن میں رہنے والے لوگ اپنی بقا کے لیے درکار بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم ہیں۔

UN News
مومن ابو عصر پانی کے ڈرم کی مرمت کر رہے ہیں۔

'ایسی زندگی سے موت بہتر'

مومن اور ان کا خاندان تقریباً دو ماہ سے اس جگہ مقیم ہے۔ ان کا خیمہ کپڑے کے ٹکڑوں سے جوڑ کر بنایا گیا ہے جہاں چند ٹوٹے پھوٹے برتن دکھائی دیتے ہیں جنہیں یہ لوگ قریبی ملبے سے اٹھا لائے تھے۔

خیمے سے باہر بچوں کے ساتھ بیٹھے مومن اپنے فون کی سکرین پر تصویریں دیکھ کر غزہ شہر کے مشرقی علاقے شجاعیہ میں اپنی گزشتہ زندگی کو یاد کر رہے ہیں۔

جنگ شروع ہوئی تو انہیں کوئی انتباہ جاری کیے بغیر وہاں سے نکلنے کا حکم ملا تھا جس کے بعد وہ دربدر ہیں۔

انہوں نے یو این نیوز کو بتایا کہ ایک ایسا وقت بھی آیا جب انہیں ہر دو ماہ کے بعد نقل مکانی کرنا پڑتی تھی۔ ایسا ہر دن ان کے لیے نئی مصیبتیں لاتا تھا۔ جب وہ اس علاقے میں آئے تو انہیں ان کے پاس خوراک تھی، نہ پانی اور نہ ہی کوئی خیمہ تھا۔

مومن بتاتے ہیں کہ وہ پانی کی چھوٹی ٹینکیاں مرمت کرتے ہیں جس سے انہیں پانچ شیکل (1.43 ڈالر) اجرت ملتی ہے۔ اس رقم سے وہ کچھ نہیں خرید سکتے کہ ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایک کلو آٹے کی قیمت 100 شیکل (تقریباً 28.60 ڈالر) ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ انہیں اگلا کھانا کیسے ملے گا اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔

UN News
مومن ابو عصر کے خاندان کے ایک سوئے ہوئے بچے پر مکھیاں بھنبنا رہی ہیں۔

پانی پر گزارا

مارچ میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امداد کی فراہمی کو روکنے کے بعد حالات کہیں زیادہ خراب ہو گئے ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں بھیجی جانے والی امداد 20 لاکھ سے زیادہ آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انتہائی ناکافی ہے۔ ان حالات میں بھوکے اور مایوس لوگ امدادی سامان کو لوٹ رہے ہیں۔

زینت بتاتی ہیں کہ گزشتہ روز ان کا کمسن بیٹا بھوک سے رو رہا تھا جسے کھلانے کے لیے ان کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی حالت دیکھ کر وہ خود بھی رونے لگیں اور بچے کو پانی پلا کر مطمئن کرنے کی کوشش کی لیکن پانی سے بھوک نہی مٹتی۔ انہوں نے اپنے بچوں سے کہہ رکھا ہے کہ جب کھانے کو کچھ نہ ہو تو وہ پانی پی لیا کریں۔

UN News

'ہم پر ایٹم بم گرا دیں'

زینت کے خیمے میں ہر جگہ مکھیاں اڑتی دکھائی دیتی ہیں اور باہر بھوکے آوارہ کتے منڈلاتے پھرتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ گزشتہ روز ایک کتا خیمے کے اندر گھس آیا اور ترپال کھینچنے لگا۔ اس وقت ان کا بیٹا سو رہا تھا۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ بچے کو کھینچ رہا ہوں۔ وہ خوف سے چیخیں تو ان کے شوہر اندر آئے اور کتے کو مار بھگایا۔

زینت کہتی ہیں، انہیں دربدر کر دیا گیا ہے۔ ان کے دل مردہ ہو چکے ہیں۔ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔ جنگ بند ہونی چاہیے اور لوگوں کو سکون ملنا چاہیے۔ بصورت دیگر تمام ممالک اکٹھے ان پر ایٹم بم گرا کر ان کی تکالیف کا خاتمہ کر دیں کیونکہ غزہ کے لوگ اس زندگی سے تنگ آ چکے ہیں اور اب ان میں مزید مصائب سہنے کی ہمت نہیں رہی۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات