Live Updates

معاشی ترقی کے دعوے حقائق کے منافی، بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار ہے، مرکزی تنظیم تاجران پاکستان

جمعرات 12 جون 2025 18:36

اسلام آباد/ کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جون2025ء) مرکزی تنظیم تاجران پاکستان کے صدر محمد کاشف چوہدری، جنرل سیکرٹری سید عبدالقیوم آغا اور صوبائی ترجمان کاشف حیدتی نے وفاقی بجٹ 2025-26 پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس بجٹ میں نہ کوئی معاشی اصلاحات شامل ہیں، نہ سرمایہ کاری کے فروغ اور تحفظ کے لیے اقدامات نظر آتے ہیں۔ سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز، زرعی شعبے، صنعت و تجارت اور معیشت کے دیگر اہم شعبوں کے لیے بھی کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔

ایک بار پھر محض اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے ساتھ خسارے کا روایتی بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ حیرت ہے یہ کیسے معاشی ماہرین ہیں جو موجودہ قرض اتارنے اور ریاستی نظام کو چلانے کے لیے مزید قرض لینے جا رہے ہیں، اور پھر بھی بجٹ پیش کرتے ہوئے خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

جب قومی آمدن کا 47 فیصد، یعنی 82 کھرب روپے، صرف سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرض ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کہاں ہیں حکومت ایکسپورٹ بڑھانے اور صنعت و تجارت کا پہیہ چلانے کی بات تو کرتی ہے لیکن سستی بجلی، گیس، پٹرول اور سادہ ٹیکس نظام کے بغیر یہ کیسے ممکن ہوگا بدقسمتی سے بجلی سستی کرنے، آئی پی پیز کے ظالمانہ معاہدے ختم کرنے اور بجلی کے بلوں پر لگے 13 ٹیکسز کے خاتمے کے بجائے سولر پینلز پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔

پہلے ہی وزارتِ پانی و بجلی نے ظلم کیا کہ سولر سے بننے والی بجلی کی خرید قیمت 10 روپے مقرر کی گئی اور وہی بجلی صارفین کو مہنگے داموں واپس بیچی جا رہی ہے۔ بجٹ میں ایک اور زیادتی یہ کی گئی کہ گردشی قرضے کو ختم کرنے کے لیے سرچارج کے نام پر بلوں میں من مانی قیمت شامل کرنے کا اختیار واپڈا اور وزارتِ توانائی کو دے دیا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم کرنے کے بجائے پیٹرولیم لیوی کو 78 روپے سے بڑھا کر 100 روپے فی لیٹر کر دیا گیا اور مزید ظلم یہ کہ کاربن ٹیکس کے نام پر ایک اور نیا ٹیکس بھی لگا دیا گیا۔

جب بجلی، گیس اور پٹرول مہنگے ہوں گے تو لاگتِ پیداوار کیسے کم ہوگی اور ایکسپورٹ کیسے بڑھے گی سپر ٹیکس میں نمائشی کمی کی گئی ہے لیکن انکم ٹیکس کی 39 سے 45 فیصد تک کی ظالمانہ شرح میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ ایسے میں صنعت و تجارت کیسے چلے گی یہ ایک بنیادی سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں کو دینا ہوگا۔ حکومت کہتی ہے کہ ٹیکس جمع نہیں ہوتا، تو 11,900 ارب روپے کس نے دیی یہ وہی قوم، تاجر، صنعتکار، تنخواہ دار طبقہ اور عام آدمی ہے جس نے اپنا خون پسینہ نچوڑ کر یہ ٹیکس دیا۔

اب حکومت نے اگلے سال کے لیے 14,200 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے، یعنی 2,300 ارب روپے کا اضافہ، جو نئے ٹیکسز سے پورا کیا جائے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ کاروبار کیسے چلے گا عام آدمی کی قوت خرید کیسے بحال ہوگی پہلے ہی مہنگائی نے عوام کو اس حد تک کچل دیا ہے کہ وہ خریداری کے قابل نہیں رہا، جس کے باعث کاروباری سرگرمیاں ماند پڑ چکی ہیں۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات