آسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 جون2025ء)سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کو بے پناہ اختیارات حاصل ہیں ، کل پھر ہم کہہ دیں وزیر اعظم فارغ ہے ،ایسا بھی ہوا سپریم کورٹ فیصلوں پر سیاستدانوں نے عمل نہیں کیا،ہر دور میں ایک سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے۔جمعہ کو سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 11رکنی آئینی بینچ نے مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کیخلاف نظرثانی درخواست پر سماعت کی۔
رہنماء پی ٹی آئی کنول شوذب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کی ذمہ داری ہے کہ بنیادی حقوق کی حفاظت کرے، اسے یہ ذمہ داری آئین نے دی ہے۔ جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیسے اس کیس میں آرٹیکل 187 لاگو ہوتا ہی ،جس پر وکیل نے کہا کہ اس بارے آگے جا کر تفصیلی سے بتائوں گا، سپریم کورٹ کے پاس زیادہ اختیار ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 187اور 184کو اکٹھے استعمال کر کے مکمل انصاف کر سکتی ہے۔
(جاری ہے)
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا آرٹیکل 184/3کا استعمال عوامی مفاد میں ہوتا ہی جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ جی بالکل سپریم کورٹ 184/3کا استعمال پبلک انٹرسٹ اور بنیادی حقوق کیلئے کر سکتی ہے، جب تباہی ہو جائے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کون سا آرٹیکل ہے، پھر سپریم کورٹ کو آگے آنا پڑتا ہے جو ضروری ہو کرنا چاہئے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو اور اس کا کوئی آرٹیکل نہ ہو تو کیا پھر بھی سپریم کورٹ کو ایکٹو ہونا چاہئی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل ایسی صورت میں جو ضروری ہے وہ سپریم کورٹ کو کرنا چاہئے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 199کو 187کیساتھ ملا کر نہیں پڑھ سکتے، 199کے تحت ہائیکورٹ کے اتنے اختیارات ہیں کہ سپریم کورٹ کے پاس بھی نہیں۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے استفسار کیا کہ آپ کے خیال سے سپریم کورٹ کے اختیارات کی حد کیا ہی ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرے برادر جج کا کہنا ہے کہ اختیارات کی کوئی حد تو ہونی چاہئے، کیا سپریم کورٹ کو ہر کیس میں بے پناہ اختیارات حاصل ہیں مخصوص نشستوں کیس کے اکثریتی فیصلے میں کیا کوئی آئینی یا قانونی خلاف ورزی ہوئی ہی سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی، آزاد امیدواروں کو 3دن کے بجائے 15روز میں پارٹی شمولیت کا اختیار دیا گیا، اگر 15روز کا وقت نہ دیا جاتا تو قانون کے مطابق اور کوئی حل ہی نہیں تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ3دن میں سیاسی جماعتوں کو جوائن کرنے کا اختیار تو آئین نے دیا ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ فیصل صدیقی نے کہا تھا کہ صرف 187کے تحت فیصلہ دیا جا سکتا ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ 187کیساتھ 184کا استعمال بھی ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ عدالت 187کے استعمال سے بھی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اختیار استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل کا لکھنا لازمی ہی کیا سپریم کورٹ کچھ بھی کر سکتی ہی کل کو پھر ہم کہہ دیں کہ وزیر اعظم فارغ ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ سپریم کورٹ آئینی اختیارات کہیں بھی استعمال کر سکتی ہے۔
جسٹس علی باقر نجفی نے پوچھا کہ مکمل انصاف کے اختیار کیلئے آرٹیکل 184تین ضروری ہے یا نہیں کیا آرٹیکل 184تین کی درخواست کے بغیر بھی مکمل انصاف کیا جاسکتا ہی جس پر وکیل نے کہا کہ مکمل انصاف کا اختیار سپریم کورٹ کسی بھی کیس میں استعمال کر سکتی ہے، مکمل انصاف کے اختیار میں آرٹیکل 184تین بھی آتا ہے، سپریم کورٹ کے 11ججز نے تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی کو نشستیں ملنی چاہئیں، تعداد کا فرق ہے کتنی نشستیں ملیں مگر 11ججز نے ایک فیصلہ دیا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستوں میں غیر مسلم اور عام پبلک کا کہا گیا ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل عام پبلک کی بھی اہمیت ہے، ووٹ ایک بنیادی حق ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیا پیدائش سے ووٹ کا حق مل جاتا ہے یا 18سال کی عمر میں ملتا ہی جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ووٹ آئینی حق ہے جسے قانون ریگولیٹ کرتا ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ 10سال کی عمر میں بھی ووٹ کا آئینی حق استعمال کیا جاسکتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ یہ حق موجود قانون کے تحت 18سال کی عمر میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے، ووٹ کا بنیادی حق استعمال کرتے ہوئے عوام اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ مگر عوام کو نمائندے منتخب کرنے کے حق سے 1970میں محروم رکھا گیا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ صرف 1970نہیں بلکہ اس حق سے عوام کو بار بار محروم رکھا گیا۔جسٹس باقر علی نجفی نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی نے مخصوص نشستوں کا دعوی کیا ہے، کیا مخصوص نشستیں لینا کسی جماعت کا بنیادی حق ہی جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عوام جب ووٹ کرتے ہیں تو مخصوص نشستیں عوام کی ہوتی ہیں، مخصوص نشستیں لینا سیاسی جماعت کا بنیادی حق ہے، بے نظیر بھٹو کیس کا جب 1988ئ کے فیصلے میں اجتماع اور ووٹ کے حق میں فیصلہ دیا گیا تو میں خوشی سے ناچتا رہا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ میں نہ یوٹیوبر ہوں نہ ہی سوشل میڈیا ایکٹویسٹ ہوں جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یوٹیوبر بے چارے بھی اس وقت ذہن کو استعمال کریں گے جب عدالت میں ہی مناسب جواب مل جائے گا۔ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک وکیل آخری وقت تک سیکھتا رہتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے سیکرٹری کے طور پر بھی آپ کی کچھ ذمہ داریاں ہیں جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ وہ ذمہ داریاں باہر میں ادا کرتا رہوں گا، بول کہ لب آزاد ہیں تیرے، لیکن یہاں صرف وکیل ہوں، ملک میں کبھی براہ راست مارشل لائ تو کبھی انڈر دی کلر آف لا 58ٹو بی کے استعمال میں واقعات رونما ہوئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ پرانی تاریخ بیان کر رہے ہیں، سپریم کورٹ فیصلہ دیتی ہے تو یہاں ایسا بھی ہوا سیاست دانوں نے عمل نہیں کیا، ہر دور میں ایک سیاسی جماعت بینیفشری رہی ہے۔سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس سوال کا جواب میں عدالت سے باہر جا کر دوں گا، سپریم کورٹ کے 11ججوں نے مصنوعی حقائق کے بجائے پردے کے پیچھے چھپے حقائق کو تسلیم کیا، ایسا نہیں ہوتا وہ جرم جو قلم نہ لکھے وہ جرم ہی نہیں ہوتا، ایسا نہیں ہوتا اگر ایف آئی آر درج نہ ہو تو اسے وقوعہ ہی نہ سمجھا جائے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 9بجے تک ملتوی کر دی۔