پاکستان ای کامرس ایسوسی ایشن کے وفد کی لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد سے ملاقات

ہفتہ 21 جون 2025 21:45

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جون2025ء) پاکستان ای کامرس ایسوسی ایشن نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے ای کامرس سیکٹر پر عائد نئے ٹیکسز کے مسائل حل کروانے کے لیے مدد طلب کی ہے۔ وفد نے لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد سے ملاقات میں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاہور چیمبر پاکستان کی ابھرتی ہوئے ڈیجیٹل کاروبار کے تحفظ کے لیے خصوصی کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس موقع پر سابق صدر لاہور چیمبر محمد علی میاں، عمران حیدر ، شہباز صدیق اور وفد کے دیگر اراکین نے بھی خطاب کیا جبکہ لاہور چیمبر کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین خرم لودھی، آمنہ رندھاوا اور رانا محمد نثار بھی موجود تھے۔وفد نے صدر لاہور چیمبر کو آگاہ کیا کہ پیچیدہ ٹیکس اقدامات کے اچانک نفاذ سے ای کامرس سیکٹر میں شدید بے چینی پیدا ہوئی ہے۔

(جاری ہے)

وفد کا کہنا تھا کہ حکومت نے حالیہ پالیسی تبدیلیاں متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر کیں جن میں مبہم قانونی اصطلاحات کی وجہ سے الجھن پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں آن لائن کاروبار کرنے والوں اور مارکیٹ پلیسز کو آپریشنل غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔وفد نے نشاندہی کی کہ جی ایس ٹی، سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کی لازمی رجسٹریشن کی شرط چھوٹے اور گھریلو کاروبار کرنے والوں کے لیے اضافی بوجھ بن جائے گی اور یہ اقدامات نئے کاروباری افراد کو ڈیجیٹل معیشت میں داخل ہونے سے روکیں گے۔

مزید برآں، کیش آن ڈیلیوری پر آن لائن ادائیگیوں کی نسبت زیادہ ودہولڈنگ ٹیکس عائد کرنا امتیازی سلوک اور حکومت کی ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کی پالیسی سے متصادم ہے۔وفد نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے فقدان نے انڈسٹری کو ان پالیسیوں کے نفاذ کے لیے تیار ہونے کا موقع ہی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ پلیٹ فارم اور انٹرمیڈیری جیسے کلیدی الفاظ کی تعریف واضح نہ ہونے کے سبب پالیسی کے نفاذ میں تضاد اور مزید الجھن پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔

صدر لاہور چیمبر میاں ابوذر شاد نے ڈیجیٹل انٹرپرینیورز اور اسٹارٹ اپس کو بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حکومتی پالیسی سازی جامع، آگاہ اور تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد ہونی چاہیے تاکہ شفافیت اور پائیداری کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے ٹیکس اتھارٹیز اور ڈیجیٹل بزنس کمیونٹی کے درمیان فوری مذاکرات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ان مسائل کو باہمی افہام و تفہیم سے حل کیا جا سکے۔

میاں ابوذر شاد نے تجویز دی کہ ‘‘پلیٹ فارم’’، اور ‘‘سیلر’’ سمیت دیگر مبہم معلومات کی واضح اور درست تعریفات متعارف کرائی جائیں تاکہ ابہام کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ چھوٹے اور گھریلو کاروباروں کے لیے آمدنی کی بنیاد پر استثنیٰ کی حد مقرر کی جائے تاکہ انہیں غیر ضروری ٹیکس کمپلائنس سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ کیش آن ڈلیوری اور آن لائن ادائیگیوں پر یکساں ٹیکس کا اطلاق کیا جانا چاہیے ۔

انہوں نے مزید تجویز دی کہ ایڈوانس ٹیکس کٹوتیوں کی واپسی کے لیے شفاف اور مؤثر ریفنڈ میکنزم متعارف کرایا جائے تاکہ کاروباری اداروں پر مالی بوجھ کم ہو۔ میاں ابوذر شاد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی نئی ٹیکس پالیسی کے نفاذ کے لیے کم از کم دو سے تین ماہ کا عبوری عرصہ دیا جائے تاکہ کاروبار اس کے مطابق خود کو تیار کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی و آگاہی پروگرامز اور تربیتی مہمات شروع کی جائیں تاکہ کاروباری افراد اپنی ٹیکس ذمہ داریوں کو سمجھ سکیں اور ڈیجیٹل نظام اپنانے میں آسانی ہو۔