ایران کی افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ سوالات اٹھنے لگے، امریکہ اور اسرائیل پریشان

ایک خفیہ جوہری سائٹ حملوں میں محفوظ رہنے کی اطلاعات، اس خفیہ تنصیب کا کسی کو بھی علم نہیں؛ رپورٹ

Sajid Ali ساجد علی بدھ 25 جون 2025 12:46

ایران کی افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ سوالات اٹھنے لگے، امریکہ اور اسرائیل ..
واشنگٹن ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 25 جون 2025ء ) امریکی حملوں کے بعد ایران کی افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ اس حوالے سے سوالات اٹھنے لگے۔ تفصیلات کے مطابق امریکہ کے نائب صدر جے ڈی وینس نے اے بی سی نیوز کو ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر بنکر بسٹر بموں کی بمباری کے بعد 400 کلوگرام افزودہ یورینیئم لاپتہ ہے جو تقریباً 10 ایٹمی ہتھیاروں کے لیے کافی سمجھی جاتی ہے، امریکی انتظامیہ آنے والے ہفتوں میں اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے کام کرے گی اور ایرانی حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔

وائٹ ہاؤس انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ امریکی بمباری سے ایرانی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں لیکن امریکی فوجی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ نقصان اتنا بھی شدید نہیں جتنا وائٹ ہاؤس کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے، ایران کا جوہری پروگرام صرف چند ماہ پیچھے چلا گیا اور ایران کی افزودہ یورینیئم کا اس حملے میں خاتمہ نہیں ہوا۔

(جاری ہے)

اسرائیلی و امریکی انٹیلی جنس حکام سمجھتے ہیں کہ ایران نے بمباری سے چند روز قبل اس افزودہ یورینیئم اور بعض حساس آلات کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیئے، یہ مواد ممکنہ طور پر اصفہان کے قریب کسی نئی زیرزمین تنصیب میں منتقل کیا گیا ہے، اسی طرح چینی اور روسی سیٹیلائٹ ماہرین نے بھی دعویٰ کیا کہ ایران نے امریکی حملے سے قبل ایٹمی اثاثے منتقل کردیئے تھے، یورینیئم کو انتہائی بھاری مقدارمیں تنصیبات سے منتقل کیا گیا، امریکی طیاروں نے محص دھواں اڑانے کی مشق کی۔

بھارتی میڈیا نے بھی اسی قسم کی رپورٹس پیش کیں جن میں کہا گیا کہ امریکی حملے سے ایک دن ہی قبل ہی ایران نے یورنیئم منتقل کردیاتھا جب کہ ایرانی حکام بھی تصدیق کر چکے ہیں کہ حملے سے قبل تنصیبات سے افزودہ یورینیم اور ضروری سامان منتقل کردیا تھا اور حملے کے وقت تمام تنصیبات خالی تھیں، تمام تر صورتحال کو دیکھیں تو اس بارے میں سوالات اب بھی موجود ہیں کہ ایران کی افزودہ یورینیئم کتنی تعداد میں اور کہاں موجود ہے؟۔

اس حوالے سے نیویارک پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ ’ایران کی لاپتہ یورینیئم 60 فیصد تک افزودہ تھی اور ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے اسے 90 فیصد تک افزودہ ہونا ضروری ہے، تاہم لاپتہ یورینیئم کی یہ مقدار امریکہ سے مذاکرات میں ایران کے لیے ممکنہ طور پر سودے بازی کا ایک اہم ہتھیار ہوگی‘ اس سلسلے میں بی بی سی کا کہنا ہے کہ ’لاپتہ افزودہ یورینیئم کی یہ مقدار کسی بھی جوہری ہتھیار کا ایک اہم حصہ ہے، ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ایران میں ایک ایسی تنصیب بھی موجود ہے جس کے بارے کسی کو علم نہیں اور وہ ان حملوں میں محفوظ رہی تاہم افزودہ یورینیئم کہاں گئی؟ ایران اسرائیل جنگ بندی کے باوجود یہ سوال امریکی صدر ٹرمپ کے سامنے اب بھی موجود ہے۔