وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا. آڈیٹر جنرل

فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے دانستہ تاخیری اقدامات کا نتیجہ ہے جس سے نجی شعبے کو فائدہ جب کہ گندم کے کاشتکاروں اور قومی خزانے کا نقصان پہنچا. رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 9 جولائی 2025 16:10

وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔09 جولائی ۔2025 ) آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی رپورٹ میں تصدیق کی گئی ہے کہ وفاقی حکومت کا 300 ارب روپے کی گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا جو ناقابل اعتماد ڈیٹا کی بنیاد پر کیا گیا نجی ٹی وی کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں گندم امپورٹ کرنے کا فیصلہ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ان دانستہ تاخیری اقدامات کا نتیجہ ہے جس سے نجی شعبے کو فائدہ جب کہ گندم کے کاشتکاروں اور قومی خزانے کا نقصان پہنچا.

(جاری ہے)

رپورٹ کے مطابق جس سال یہ گندم امپورٹ کی گئی اس سال ملکی تاریخ میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوئی تھی، وافر اسٹاک ہونے کے باوجود قومی طلب کے اندازے کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے منظوری 24 لاکھ میٹرک ٹن امپورٹ کی دی، امپورٹ 35 لاکھ ٹن سے زائد کر لی . آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ بدنام زمانہ گندم اسکینڈل کی سنگینی کی سرکاری طور پر تصدیق ہے پنجاب اور سندھ نے کم گندم جاری کر کے مصنوعی قلت اور قیمتوں میں اضافے کے اسباب پیدا کیے رپورٹ کے مطابق گندم کے بڑے پیداواری مراکز سمجھے جانے والے صوبوں پنجاب اور سندھ نے 2023 کے وسط میں فلور ملز کو گندم کی بہت کم مقدار فراہم کی جس سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت کا تاثر پیدا ہوا اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا.

رپورٹ کے مطابق وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت نے نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر جان بوجھ کر درآمدی عمل کو تاخیر کا شکار بنایا اے جی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 24-2023 میں سرکاری شعبے کی گندم خریداری ہدف سے 25 فیصد کم رہی جب کہ 25-2024 میں یہ کمی 40 فیصد تک جاپہنچی اور پنجاب نے 25-2024 میں ایک دانہ گندم بھی نہیں خریدی حکومت نے گندم کا کم از کم امدادی نرخ کا بروقت اعلان نہیں کیا جو کاشتکاروں کو قیمت کا تحفظ فراہم کرنے والی اہم پالیسی ہوتی ہے.

رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم فصل کی کٹائی سے عین قبل درآمد کی گئی اور اسے ریاست کے بجائے نجی درآمد کنندگان نے ذخیرہ کیا کیونکہ حکومت کے پاس صرف 5 لاکھ میٹرک ٹن گنجائش تھی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ذخائر سے متعلق دعوے غلط اور گمراہ کن تھے، مقامی کاشتکاروں کے فوائد درآمد کنندگان اور ذخیرہ اندوزوں میں بانٹے گئے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ افغانستان کی گندم کی طلب کو بغیر کسی دستاویز یا جواز کے پاکستان کی ملکی کھپت میں شامل کیا گیا.