معاشرے کی کامیابی کا رازایمان اورتقوی ہی: مولانا سید حسن نقوی

جمعہ 11 جولائی 2025 21:47

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 جولائی2025ء) جامع مسجد علی حوزہ علمیہ جامعتہ المنتظرماڈل ٹاؤن میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے مولانا سید حسن نقوی نے کہا ہے کہ ایمان کی پہلی نشانی اللہ کے فیصلوں پر راضی ہونا اور دوسری تمام فیصلے خالق کائنات کے سپرد کرنا ہے۔ دنیا ایک ایسی چیز ہے جس کے حلال میں حساب اور حرام میں عتاب ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ۔

مولانا حسن نقوی نے کہا کہ رازقیت اورخالقیت نظام ہستی ہے کہ اللہ کی ذات کا کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سورہ توحید گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے،جو اپنی ہستی اور صفات میں کوئی شریک نہیں رکھتا ۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ کامیاب معاشرے کی کامیابی کا راز ایمان اور تقوی ہے۔ اگرکوئی معاشرہ نفاق میں ڈوب جائے تو وہ اس قابل ہی نہیں رہتا کہ امام وقت کا ساتھ دے سکے ۔

کیونکہ انسان کا امام وقت کے ساتھ تعلق بھی ایمان اور تقوی کی بنیاد پر ہی ہے۔ مولانا حسن نقوی نے کہا امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے روانگی کے وقت فرمایا تھا کہ میں اس لیے روانہ ہو رہا ہوں تاکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کر سکوں ۔انہوں نے کہا کہ امام حسین علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ مجھ جیسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا ۔

امام کایہ فرمان تفکر کے قابل ہے ۔سوچیں کہ اب بھی معاشرے میں کوئی یزید جیسا تو نہیں ہے ،جبکہ ایک اور جگہ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ اس اسلام پر میرا سلام کہ جس کا حاکم یزید جیسا ہو ۔اپنے اس ارشاد میں یزید جیسا کہہ کر امام حسین علیہ السلام نے وقت کی قید ختم کر دی جب بھی کہیں بھی یزید جیسا حکمران ہوتو اس کی مخالفت ہی سیرت حسین ؑہے ۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں امام حسین علیہ السلام کے ان فرامین کو اگرکسی نے سمجھا ہے تو وہ امام خمینی ہیں ،جنہوں نے ظلم اور استکبار کے خلاف بغاوت کر کے یہ بتا دیا کہ حقیقی اسلام کے پیرو کارکیسے ہوتے ہیں۔ مولانا سید حسن نقوی نے کہا کہ اب اگر امت بابصیرت رہے تو کبھی بھی کسی فاسق اور فاجر کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ مملکت اسلامی کا حکمران بنے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص یہ دیکھے کہ ایسا حکمران مسلط ہے جو حلال و حرام میں تمیز ختم کر رہا ہے اور وہ خاموش رہے تو اس خاموش شخص کو بروز قیامت وہی سزا ملے گی جو ظالم حکمران کی ہوگی ۔ان کا کہنا تھا کہ سید الشہداء کی جنگ اقتدار کی نہیں بلکہ اقدار کی تھی۔ آج سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہم صحیح معنوں میں امام وقت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اور ایسی صفات اور اعمال کے مالک ہیں جن کی ضرورت امام وقت کو ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امام وقت کا انتظار افضل ترین عبادت ہے۔