نتائج پر مبنی نظامِ تعلیم کی طرف پیش رفت وقت کا اہم تقاضا ہے، ڈاکٹر یاسر نواب

ہفتہ 12 جولائی 2025 17:06

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جولائی2025ء) وائس چانسلر یونیورسٹی آف کمالیہ ڈاکٹر یاسر نواب نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے نظامِ تعلیم کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی جو نتائج پر مبنی ہو کیونکہ جامعات اینٹ اور پتھر سے آگے کی بات ہے۔ اے پی پی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں جب ہم کسی جامعہ کا تصور کرتے ہیں تو اکثر ذہن میں ایک وسیع و عریض کیمپس، بلند عمارتیں اور شاندار انفراسٹرکچر کا عکس ابھرتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایک جامعہ کی عظمت اس کے ظاہری خدوخال سے ناپی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی ممتاز جامعات کا معیار ان کی عمارتوں سے نہیں بلکہ ان کے فکر انگیز ماحول، تحقیق کے معیار اور سیکھنے کے ایسے نظام سے جڑا ہوتا ہے جو طلبہ کو محض معلومات دینے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو جلا بخشتا ہو۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا شعبہ اب ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں ہمیں سنجیدگی سے یہ سوال کرنا ہوگا کہ کیا ہماری جامعات علم پیدا کر رہی ہیں یا صرف ڈگریاں بانٹنے کی مشینیں بن چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے نظامِ تعلیم کی طرف پیش رفت کرنا ہوگی جو نتائج پر مبنی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایسے نظام کی اشد ضرورت ہے جو صرف امتحان پاس کرانے کے لیے نہیں بلکہ طلبہ کو مہارت، تنقیدی سوچ اور تخلیقی صلاحیتوں سے لیس کرنے کے لیے ہو جو انہیں محض نوکری کے متلاشی نہیں بلکہ معاشرتی تبدیلی کا علمبردار بنائے۔انہوں نے کہا کہ تحقیق کو کمرہ جماعت اور لائبریری کی حدود سے نکال کر معاشرے کے حقیقی مسائل سے جوڑنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی قلت، ماحولیاتی تبدیلی، زراعت، صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صنعت جیسے شعبے ایسے ہیں جہاں مقامی سطح پر تحقیق سے نہ صرف علمی پیداوار ہوگی بلکہ عملی بہتری بھی آئے گی۔انہوں نے کہا کہ ہماری جامعات میں تنقیدی سوچ، مکالمے اور علمی اختلاف کی وہ فضا ہونی چاہیے جس میں طالب علم سوال کر سکے، مختلف رائے رکھ سکے اور نئے زاویوں سے سوچ سکے۔

انہوں نے کہا کہ جب تک ذہن آزاد نہیں ہوگا علم کا نور مکمل نہیں ہو سکتا، اس سلسلے میں ایک اہم پہلو کمیونٹی کی شراکت داری ہے، ہمیں ایک ایسا تعلیمی ماڈل درکار ہے جس میں مقامی افراد، ادارے اور کاروباری طبقہ مستحق طلبہ کی مدد کے لیے آگے آئیں، اس سے نہ صرف علم کا دائرہ بڑھے گا بلکہ محروم طبقے کو ترقی کا موقع بھی ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹلائزیشن اور مؤثر نظم و نسق وہ بنیاد ہے جس پر جدید جامعہ کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ شفافیت، کارکردگی اور فیصلہ سازی میں تیزی لانے کے لیے ہمیں انتظامی نظام کو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جو اقدار، علم، اصول اور ماڈل ہم دوسروں کو سکھانے کا دعویٰ کرتے ہیں، انہیں سب سے پہلے ہمیں خود پر لاگو کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ جامعات کو خود ان تبدیلیوں کا نمونہ بننا ہوگا جن کی وہ تبلیغ کرتی ہیں بصورتِ دیگر، اصلاح کا سفر محض نعروں تک محدود رہے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جامعات تبدیلی کے مراکز بنیں تو ہمیں ان کا کردار ازسرِ نو متعین کرنا ہوگا۔