امریکہ پلٹ شخص نے ملکی قانون کو پاؤں کی نوک پر رکھتے اپنی خودساختہ عدالت لگا ڈالی

منگل 15 جولائی 2025 22:34

راولاکوٹ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 جولائی2025ء) امریکہ پلٹ شخص نے ملکی قانون کو پاؤں کی نوک پر رکھتے اپنی خودساختہ عدالت لگا ڈالی، چوری کے الزام میں نابینہ بزرگ شخص کے دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو جبری اغوائ کر کے کتوں کے پنجرے میں ڈال کر تشدد کا نشانہ بنایا مرچی بھی کھلائی پھانسی دینے کی دھمکیاں راولاکوٹ پولیس مضروب بچے کی درخواست پر کاروائی کرکے ایف آئی آر درج کرنے گریزاں وزیر اعظم آزاد کشمیر اور اعلی عدلیہ کے چیف جسٹس صاحبان سے نوٹس لینے کا مطالبہ یہ دردناک واقعہ راولاکوٹ کے نواحی علاقے دریک میں میں فاروڈ کہوٹہ سے آکر آباد ایک غریب خاندان تعلق رکھنے والے دو کمسن بچوں کے ساتھ امریکہ پلٹ نو دولتیے خواجہ طائر نے اپنی بیوی اورعزیزوں کے ساتھ مل کر سر انجام دیا ذرائع کے مطابق یہ طلبہ دریک کے ایک دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم تھے۔

(جاری ہے)

معلومات کے مطابق، مقامی رہائشی امریکہ پلٹ شخص خواجہ طائر نے بچوں کو موبائیل فون چوری کا الزام لگا کر یکے بعد دیگرے انہیں مسجد اور سکول سے جبری اٹھا کر اپنے گھر لے جا کر تشدد کا نشانہ بنوایا پولیس کو درخواست کے مطابق خواجہ طائر نامی شخص کی اہلیہ تانیہ طائر بھتیجے شیال نے قریبی رشتہ داروں عبدالمجید اور رااشد عاشق سے مل کر تشدد کیا، اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ بچوں کو کتوں کے پنجرے میں بند کر دیا گیا اور پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا۔

بچوں کو مارپیٹ کے ساتھ مرچی کھلائی گئی مرچی کا دھواں دیا گیا اور طائر خواجہ بچوں کو پھندا دیکھا کر پھانسی دینے کی دھمکیاں دیتا رہا تشدد کے تمام حربے استعمال کرنے کے بعد جب درندہ صفت گھرانے کو بچوں سے موبائل فون نہیں ملا تو انہیں چھوڑ دیا بچوں کی طرف سے تھانہ راولاکوٹ میں ایف آئی آر درج کرنے دی گئی درخواست پر بھی کاروائی نہ کی گئی سول سوسائٹی نے وزیراعظم آزاد کشمیر اور چیف جسٹس سپریم کورٹ راجہ سعید اکرم اور چیف جسٹس ہائی کورٹ لیاقت شاہین سے درد مندانہ اپیل کی ہے کہ وہ ان بچوں سے فوری ملاقات کریں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا بچوں سے کی زیادتی پر قانون کی زمہ داریاں بنتی ہیں یا جبری صل اور خاموشی ہو ،واقعے پر علاقائی سماجی حلقوں، انسانی حقوق کے کارکنان ا گرور شہریوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "خواہ وہ کوئی بھی ہو، قانون ہاتھ میں لینے کا کسی کو حق نہیں۔ یہ عمل نہ صرف انسانی اقدار بلکہ آئینی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔ بچوں پر ظلم کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔"مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ واقعے کی شفاف انکوائری کی جائے، اور اگر الزام ثابت ہو تو ملوث افراد کو قانون کے مطابق سخت سزا دی جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسا عمل دہرانے کی جرات نہ ہو۔بچوں کے تحفظ کے اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس واقعے کا فوری نوٹس لینا چاہیے تاکہ متاثرہ بچوں کو انصاف اور تحفظ فراہم کیا جا سکے