پاکستان کی مذہبی سیاست ایک بار پھر کروٹ لینے کو تیار

مولانا فضل الرحمن دینی جماعتوں کے ایک نئے اتحاد یا ممکنہ طور پرایم ایم اے کی بحالی کی راہ ہموار کرنے میں مصروف تاہم جماعت اسلامی کاکسی بھی قسم کے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے سے انکار،ذرائع

جمعہ 25 جولائی 2025 12:46

جیکب آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 25 جولائی2025ء) پاکستان کی مذہبی سیاست ایک بار پھر کروٹ لینے کو تیار ہے اور اس بار محرک بنے ہیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن جو پی ڈی ایم میں سیاسی ناکامیوں اور باہمی اختلافات کے بعد اب دینی جماعتوں کے ایک نئے اتحاد یا ممکنہ طور پر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم ای) کی بحالی کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی خواہش ہے کہ ماضی کی طرح تمام بڑی دینی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آئیں تاکہ مذہبی ووٹ کو مجتمع کرکے سیاسی طور پر موثر بنایا جاسکے تاہم اس کوشش کو فوری طور پر ایک بڑا دھچکا اس وقت لگا جب جماعت اسلامی نے کسی بھی قسم کے سیاسی اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ جماعت اسلامی کے بغیر دینی جماعتوں کا کوئی بھی اتحاد نہ صرف نامکمل بلکہ غیر موثر بھی ہوگا جماعت اسلامی کی تنظیمی طاقت، نظریاتی استقامت اور اسٹریٹ پاور کسی بھی مذہبی اتحاد کو زمین پر موجودگی بخشنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن بذات خود دینی اتحاد کے نظریاتی حامی سمجھے جاتے ہیں وہ کئی مواقع پر ملک میں دینی جماعتوں اور ووٹرز کو متحد دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرچکے ہیں تاہم وہ ماضی کے تلخ تجربات کے سبب اس بار احتیاط برت رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ایم ایم اے کا سابقہ تجربہ جماعت اسلامی کے لیے ’’نقصاندہ‘‘ ثابت ہوا اور وہ نہیں چاہتے کہ جماعت ایک بار پھر ایسے کسی غیر متوازن اتحاد کا حصہ بنے جس میں نظریہ کے بجائے مفاد غالب ہو ذرائع کا کہنا ہے کہجے یو آئی کی قیادت جماعت اسلامی کو راضی کرنے کے لیے سینئر رہنما لیاقت بلوچ سے رابطے میں ہیں اگرچہ جماعت اسلامی کی قیادت رسمی طور پر کسی اتحاد میں شمولیت کی خواہاں نہیں تاہم سیاسی حالات اور داخلی مشاورت اس فیصلے کو تبدیل کر سکتی ہے بشرطیکہ کوئی موثر شخصیت قائل کرنے میں کامیاب ہو اسی تناظر میں ایک اور نام جس کا چرچا اب تیزی سے سننے کو مل رہا ہے وہ جے یو آئی کے سینئر رہنما مرحوم حافظ حسین احمد کے فرزند حافظ منیر حسین احمد کا ہے مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر جماعت اسلامی کو کوئی دوبارہ قائل کرسکتا ہے تو وہ حافظ منیر حسین احمد ہی ہو سکتے ہیں خصوصاً اس لیے کہ ماضی میں ان کے والد نے جماعت اسلامی کے ساتھ رابطے، اعتماد سازی اور اتحاد کو برقرار رکھنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا اگر جے یو آئی کی قیادت یہ سفارتی ٹاسک حافظ منیرحسین احمد کو سونپتی ہے تو قوی امکان ہے کہ وہ کم از کم اعتماد کی فضا کو کسی حد تک بحال کرسکتے ہیں تجربہ کار سیاستدان لیاقت بلوچ بھی اس وقت مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں ماضی میں ایم ایم اے کے شدید اندرونی اختلافات کے باوجود لیاقت بلوچ اور حافظ حسین احمد کی حکمت و تدبر نے اتحاد کو قائم رکھا آج حافظ حسین احمد کی عدم موجودگی میں جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے درمیان پل کا کردار لیاقت بلوچ اور حافظ منیر حسین احمد دونوں ادا کر سکتے ہیں اگر نیت اور موقع دونوں یکجا ہوں اب سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمن جماعت اسلامی کو قائل کرنے میں کامیاب ہوں گے کیا دینی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیاجاسکے گا یا پھر دینی جماعتیں موجودہ سیاسی ماحول میں مزید تقسیم کا شکار ہوں گی سیاسی منظرنامے پر نگاہ رکھنے والے حلقے اس پیش رفت کو گہری دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ اگر مذہبی جماعتیں دوبارہ متحد ہوجاتی ہیں تو یہ نہ صرف انتخابی سیاست میں نئی صف بندی کا باعث بنے گا بلکہ ملک میں نظریاتی سیاست کو بھی ایک نیا رخ دے سکتا ہے۔