مستقبل کی جنگوں میں مصنوعی ذہانت کااہم کردارہوگا

ٹیکنالوجی میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دے گی، دفاعی ماہرین

پیر 28 جولائی 2025 16:38

برلن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جولائی2025ء)مستقبل کی جنگوں میں مصنوعی ذہانت، خود کار ڈرونز،آٹومیٹک گاڑیاں اور سائبر حملے سپاہیوں کے بہادرانہ حوصلوں سے زیادہ اہم کردار ادا کریں گے۔ جرمن نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق یہ ٹیکنالوجی میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دے گی، امریکا اور چین اس دوڑ میں آگے ہیں لیکن یورپ اس دوڑ میں ان دونوں بڑی طاقتوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔

امریکا جدید ٹیکنالوجی سے لیس دفاعی صلاحیت میں عالمی قیادت کا خواہشمند ہے۔ یہ صلاحیت اس کی عالمی طاقت ہونے کی ایک اہم وجہ بھی ہے۔دفاعی حکمت عملی کے ماہر جیکب پراکیلاس کہتے ہیں کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی دوڑ میں اس وقت کو ن سا ملک آگے ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے دفاعی نظام ایسے ہیں جن کے تجربات خفیہ رکھے جاتے ہیں یا ان کو صرف عملی میدان میں ہی جانچا جاسکتا ہے۔

(جاری ہے)

کچھ معلومات خفیہ ہوتی ہیں اور بعض اوقات ممالک خود بھی اپنی دفاعی صلاحیتوں کا اظہار نہیں کرنا چاہتے۔ چین نے خاص طور پر فوجی مقاصد کے لئے روبوٹکس کے شعبے میں نمایاں ترقی کی ہے۔چینی وزارت دفاع کے ترجمان جیانگ بن کا کہنا تھا کہ جدید سائنس اور ٹیکنالوجی ایک مضبوط دفاعی صنعت کو فروغ دیں گی۔چین اس مسئلے کو طویل المدتی حکمت عملی کے تحت دیکھتا ہے۔

دفاعی حکمت عملی کے ماہر جیکب پراکیلاس کہتے ہیں کہ چین میں عموما اس حوالے سے رازداری سے کام لیا جاتا ہے۔ فوجی مقاصد کے لئے ٹیکنالوجی کی ترقی کی دوڑ میں کون آگے ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لئے بہت سے پہلوئوں کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ صرف پراسسنگ پاور کو انفرادی یونٹ کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ،پراسسنگ پاور اور انفرادی یونٹس کے درمیان ایک ہم آہنگی ہونا بھی ضروری ہے۔

یورپ نے بظاہر اب تک چند منصوبے ہی شروع کیے ہیں۔ان میں جرمن سٹارٹ اپ اے آر ایکس روبوٹکس کا چھوٹا سا ٹینک جو دشمن کے محاذوں کی جاسوسی کے لئے بنایا گیا ہے ، اس وقت یوکرین کی جنگ میں روس کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ اے آر ایکس روبوٹکس کے سی ای او مارک ویٹ فیلڈ کا کہنا ہے کہ یورپی دفاعی کمپنیوں کو جو بڑاچیلنج درپیش ہے وہ مارکیٹ میں ہم آہنگی کی کمی ہے ۔

کوئی بھی یورپی کمپنی اگر کوئی اہم پیش رفت کرتی ہے تو اسے اپنی کامیابی کے لئے مختلف یورپی ممالک کی افواج کو اپنی پیش رفت کے موثر ہونے پر قائل کرنا پڑتا ہے۔یورپی یونین کو شاید علم ہو چکا ہے کہ اس 27 رکنی بلاک کے اتنے ہی مختلف ضوابط دفاعی شعبے کی اختراع میں رکاوٹ ہیں۔یورپی یونین کی دفاعی پالیسی کے ترجمان تھوماس ریگنیئر کے مطابق یورپی یونین میں ایک زیادہ ہم آہنگی رکھنے والی دفاعی مارکیٹ کا قیام نہ صرف یورپ کی سطح پر ہمارے سٹارٹ اپس اور چھوٹی کمپنیوں کو ترقی دے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ترقی کی رفتار تیز کرے گا ۔

امریکا اور چین کے مقابلے میں یورپ دفاعی تحقیق اور ترقی کے شعبوں میں کہیں کم سرمایہ کاری کرتا ہے۔امریکا دفاعی تحقیق پر سالانہ 100 ارب ڈالر خرچ کرتا ہیاور اس کے مقابلہ میں چین اس مد میں سالانہ 20 سے 40 ارب ڈالر خرچ کرتا ہے ۔ یورپی یونین اس مد میں اس وقت 15 ارب ڈالر سالانہ خرچ کر رہی ہے تاہم 150 ارب یورو کے نئے قرضے سے دفاعی تحقیق میں سرمایہ کاری بڑھائی جا رہی ہے۔

تھوماس ریگنیئر کا کہنا تھا کہ بطور یورپی یونین ہم دفاعی تحقیق پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے میں مدد دے سکتے ہیں۔ یہ مدد پرکشش قرضوں اور قومی سطح پر رعایتوں کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ یورپی یونین کے رکن ممالک مل کر مشترکہ خریداری کے ذریعے دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کریں لیکن اس شعبہ کی ترقی کا انحصار یورپی ممالک کے رہنمائوں کے سیاسی عزم پر ہے ۔

ایک متحدہ دفاعی مارکیٹ کے لئے یورپی یونین کو رکن ممالک کے کنٹرول کو کم کرنا ہو گا۔یورپ کے پاس وہ مہارت تو موجو د ہے جو امریکا اور چین کا مقابلہ کر سکتی ہے لیکن ٹیکنالوجی اب بہت تیزی سے بدل رہی ہے اس لئے یورپ کے پاس اب بھی آگے نکلنے کا موقع موجود ہے ۔لیٹ سٹارٹر کے طور پرہم پرانے سسٹمز کو چھوڑ کر براہ راست جدید ٹیکنالوجی اپنا سکتے ہیں۔اگر یورپی ممالک اس رفتار اور جدت کو اپنائیں تو ہم اگلے پانچ سے دس سال میں چین ، روس اور امریکا سے برابر آسکتے ہیں۔عسکری ماہرین کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو فوری طور پر اپنی مشرقی سرحد پر فضائی دفاعی نظام کی ضرور ت ہے۔ فی الحال یورپ امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتا ہے مگر وہ آئندہ برسوں میں اپنا سسٹم بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔