ہمارا خواب صحت مند معاشرہ ہے ، پاکستان میں شرح پیدائش 3.6 ہے، صحت کی سہولیات کا فقدان کوئی ملک برداشت نہیں کر سکتا، وفاقی وزیر قومی صحت

منگل 29 جولائی 2025 17:37

ہمارا خواب صحت مند معاشرہ ہے ، پاکستان میں شرح پیدائش 3.6 ہے، صحت کی سہولیات ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 29 جولائی2025ء) وفاقی وزیر برائے قومی صحت سید مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ہر صحت پالیسی کا مرکز عوام کی صحت ہونا چاہئے، ہمارا خواب ایک صحت مند معاشرہ ہے جس کی بنیاد ماں اور بچے کی صحت سے شروع ہوتی ہے، ہر سال حمل کے دوران 11 ہزار خواتین جان کی بازی ہار جاتی ہیں،پاکستان میں شرح پیدائش 3.6 ہے، اس شرح کے ساتھ کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا ، کوئی بھی ملک ایسا نظام برداشت نہیں کر سکتا جہاں پر صحت کی سہولیات کا فقدان ہو۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو یہاں پاکستان اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے درمیان بچوں کے کینسر کی مفت ادویات تک رسائی کے حوالے سے ایل او اے پر دستخط کی تقریب کے دوران کیا۔ وفاقی وزیرِ صحت مصطفیٰ کمال نے اس موقع پر نیشنل ہیضہ کنٹرول پلان 28-2025 کا افتتاح بھی کیا اور کہا کہ اس سے ہر سال 8 ہزار بچوں کینسر کی مفت ادویات فراہم کی جائیں گی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا گلوبل پلیٹ فارم برائے چائلڈ ہوڈ کینسر میڈیسن میں شامل ہونے کا مقصد بچوں میں کینسر سے تحفظ کی شرح 30 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معاہدہ کے تحت ڈبلیو ایچ او قومی وزارت صحت کو تکنیکی معاونت فراہم کرے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ معاہدہ کے تحت یونیسف ادویات کی خریداری اور پاکستان کو ادویات کی فراہمی کا ذمہ دار ہو گا۔

وفاقی وزیر نے اظہار تاسف کرتے ہوئے کہا کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بچوں میں کینسر سے شرحِ اموات 70 فیصد تک ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ بیماریوں کی روک تھام ہسپتالوں سے باہر سے شروع ہوتی ہے،اگر ہم بیماریوں کو روکنے میں ناکام رہے تو کوئی بڑا بحران جنم لے سکتا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ آج ہمارے لئے ایک اہم موقع ہے ، ہم عالمی پروگرام کے شراکت دار بنے ہیں ۔

انہوں نے بچوں کو کینسر سے بچائو کیلئے ادویات کی فراہمی کے اقدام پر یونیسف، عالمی ادارہ صحت سمیت تمام شراکت داروں سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صحت کا نظام دباؤ کا شکار ہے، ہمیں مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ، ہمیں الزام تراشی نہیں کرنی بلکہ حکومت اور عوام کو مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہو گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا خواب ایک صحت مند معاشرہ ہے جس کی بنیاد ماں اور بچے کی صحت سے شروع ہوتی ہے، ہر سال حمل کے دوران 11 ہزار خواتین جان کی بازی ہار جاتی ہیں،پاکستان میں شرح پیدائش 3.6 ہے، اس شرح کے ساتھ کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا ۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے 43 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں ،تقریباً سالانہ 8 ہزار بچے کینسر کا شکار ہو جاتے ہیں جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ہیلتھ کیئر کا اصل مقصد مریض کو بیمار ہونے سے تحفظ فراہم کرنا ہے، جتنے بھی ہسپتال بنا لیں بڑھتی ہوئی بیماریوں کا بوجھ کم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ علاج سے زیادہ اہم بیماری کی بروقت تشخیص اور روک تھام ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج کی یہ تقریب بچوں کی زندگیاں بچانے کے عزم کی عکاس ہے اور بچوں کو ادویات کی فراہمی کا مقصد ان کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ وفاقی وزیر نے زور دیا کہ عوام کو اپنے طرز زندگی میں تبدیلیاں لانا ہوں گی ۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کی بنیاد تک پہنچنا ضروری ہے کیونکہ جب ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جاتی ہیں تو اس وقت سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کا سوال کوئی نہیں اٹھاتا ۔

انہوں نے کہا کہ صرف پینے کے صاف پانی کی فراہمی سے ہسپتالوں پر دبائو میں 68 فیصد کمی لائی جا سکتی ہے اور ہماری قوم کو یہ بات سمجھنا ہوگی ۔وفاقی وزیر نے پولیو کے موذی مرض کے خاتمہ کے حوالے سے کہا کہ پولیو ورکرز ویکسین لے کر جب آپ کی دہلیز پر آتے ہیں تو اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے ان کو ویکسین لازمی پلوائیں تاکہ ان کو مستقل معذوری سے بچایا جا سکے۔ انہوں نے والدین پر زور دیا کہ وہ بچوں کی ویکسی نیشن کو یقینی بنانے کیلئے خود ویکسینٹر تک ضرور پہنچیں۔