کے ایم یو میں انسٹی ٹیوشنل کوالٹی سرکل کا اجلاس، تحقیقی معیار پر سخت اقدامات

جمعرات 31 جولائی 2025 16:20

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 جولائی2025ء) خیبر میڈیکل یونیورسٹی (کے ایم یو) پشاور نے ایم پی ایچ اسکالر انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اینڈ سوشل سائنسز ڈاکٹر محمد علی کوایم پی ایچ تھیسس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسی کی روشنی میں علمی سرقہ (پلیجرازم ) ثابت ہونے پر کے ایم یو سے اخراج کے علاوہ ایک سال تک کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے سے روکنے اور دو سال تک ریسرچ فنڈنگ، اسکالرشپ، ٹریول گرانٹ اور فیلوشپ سمیت تمام مراعات سے محروم رکھنے کی سنگین سزا ئیں سنائی ہیں۔

یہ فیصلہ کے ایم یو کوالٹی ا نہانسمنٹ سیل کے زیر اہتمام انسٹی ٹیوشنل کوالٹی سرکل (آئی ڈی سی ) کمیٹی کے دوسرے اجلاس میں کیا گیاجو گزشتہ روز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق کی صدارت میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق نے کہا کہ کے ایم یو میں طلباء،فیکلٹی اور ایڈمن سٹاف کے لیئے تمام تر لچک اور سہولیات کے باوجود ہراسمنٹ اور پلیجرازم پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب یونیورسٹی طلباء،فیکلٹی اور ایڈمن سٹاف کو تمام سہولیات اور مراعات دے رہی ہے تو ایسے میں ہراسمنٹ اور پلیجرازم جیسے غیر قانونی اور قبیح اقدامات کے خلاف ہم زیرو ٹالرینس پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور رہیں گے جس میں رعایت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔قبل ازیں اجلاس میں یونیورسٹی کے تمام شعبہ جات کے سربراہان نے معیارِ تعلیم میں بہتری سے متعلق اپنی رپورٹس پیش کیں۔

وائس چانسلر نے پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ جہاں کہیں کمی یا خامی پائی جائے اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل اور دیگر متعلقہ اداروں کے مقررہ معیار کے مطابق فوری طور پر دور کیا جائے۔ اجلاس میں ڈاکٹر محمد علی، ایم پی ایچ سکالر انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ اینڈ سوشل سائنسز کے مقالے پر تفصیلی بحث کی گئی۔

اس سلسلے میں مقالے کے مندرجات، سپروائزر اور کو سپروائزر کے بیانات، شوگر ہسپتال حیات آباد کی رپورٹ اور ممبران کی تفصیلی گفتگو کی بنیاد پر حقائق کا جائزہ لیا گیا۔واضح رہے کہ مقالے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اکتوبر 2024 سے مارچ 2025 تک شوگر ہسپتال حیات آباد میں ذیابیطس کے مریضوں کی غذائی عادات پر چھ ماہ کی کراس سیکشنل تحقیق کی گئی جس میں 373 ایسے مریض شامل تھے جن کی عمریں 5 سے 59 سال کے درمیان تھیں۔

تاہم شوگر ہسپتال نے باضابطہ طور پر وضاحت کی کہ اس مدت میں کوئی ایسا مطالعہ یا ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا گیا۔ مزید یہ کہ اس ہسپتال میں ٹائپ ون ذیابیطس کے مریضوں کی حقیقی عمر2 سے 29 سال کے درمیان ہے، اس لیے مقالے میں دی گئی معلومات درست نہیں پائی گئیں۔ سپروائزر نے بھی تصدیق کی کہ مقالے کے دعوے ہسپتال کے ریکارڈ سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مزید جانچ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ مقالے میں 243 مریضوں کے انسولین پمپ استعمال کرنے کا ذکر کیا گیا، جبکہ صوبہ خیبر پختونخوا میں انسولین پمپ استعمال کرنے والے مریضوں کی تعداد بہت کم ہے۔

کو سپروائزر نے بتایا کہ اے ایس آر بی کی منظوری کے بعد سے اسکالر نے تحقیق سے متعلق کوئی رابطہ نہیں رکھا۔ اجلاس کے دوران اسکالر نے خود اعتراف کیا کہ مقالے میں دیا گیا ڈیٹا مذکورہ ہسپتال سے حاصل نہیں کیا گیا بلکہ عوامی سطح پر دستیاب ڈیٹا کو اپنے تحقیقاتی کام کے طور پر پیش کیا گیا۔لہٰذا ان حقائق کی روشنی میں اور ایچ ای سی کے 2023 کے سرقہ مخالف ضابطے کے تحت کمیٹی نے سنگین کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر محمد علی کو کے ایم یو سے خارج کیا جائے، ایک سال تک کسی بھی اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلے سے روکا جائے اور دو سال تک ریسرچ فنڈنگ، اسکالرشپ، ٹریول گرانٹ اور فیلوشپ سمیت تمام مراعات سے محروم رکھا جائے۔

اس فیصلے کی اطلاع تمام تعلیمی و تحقیقی اداروں کو بھی دی جائے گی۔ اس معاملے کی نگرانی کے لیے ایک پلیجرازم سکروٹنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کی کنوینر پروفیسر ڈاکٹر ظل ھما ڈائریکٹر ایکیڈمکس اور رکن ڈاکٹر آسیہ بخاری ڈائریکٹر کیو ای سی ہوں گی۔