تجدید، کم لاگت اور پائیدار توانائی کا نظام ہی پاکستان کی معیشت اور سماج کی ترقی کی کنجی ہے،قابل تجدید توانائی کو عوام کے لیے سستا اور پُرکشش بنانے کے لیے مراعات دی جائیں،سینیٹر شیری رحمان

جمعرات 9 اکتوبر 2025 21:36

تجدید، کم لاگت اور پائیدار توانائی کا نظام ہی پاکستان کی معیشت اور ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 09 اکتوبر2025ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کی چیئرمین سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ قابلِ تجدید، کم لاگت اور پائیدار توانائی کا نظام ہی پاکستان کی معیشت اور سماج کی ترقی کی کنجی ہے،قابل تجدید توانائی کو عوام کے لیے سستا اور پُرکشش بنانے کے لیے مراعات دی جائیں۔ان خیالات کااظہار انہوں نے جمعرات کو پولیٹیکس آف انرجی جنریشن سیمینار سے خطا ب کرتے ہوئے کیا۔

پاکستان میں توانائی کے اہم ترین قومی معاملات پر پارلیمانی فورم کا انعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تمام صوبوں اور وفاقی اکائیوں کی شرکت کے بغیر کوئی قومی پالیسی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کسی بھی ملک کی دولت ہے، یہ ہر صنعت، ہر گھر، ہر اسکول اور زرعی ترقی کے لیے ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

بجلی ہر شہری کا حق ہے، اسے انسانی حقوق میں شامل کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شیری رحمان نے کہاکہ دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی نے فرسودہ ایندھن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، ہمیں بھی اسی سمت بڑھنا ہوگا۔ پاکستان کا توانائی کا نظام بیسویں صدی کی بنیاد پر کھڑا ہے، جس کی اصلاح اور جدید کاری ناگزیر ہے۔ انہو ں نے کہاکہ قابلِ تجدید، کم لاگت اور پائیدار توانائی کا نظام ہی پاکستان کی معیشت اور سماج کی ترقی کی کنجی ہے۔

پاکستان نے عالمی سطح پراین ڈی سیز کے ذریعے قابلِ تجدید توانائی کو فروغ دینے کا عزم کیا تھا۔ توانائی کی خودمختاری اور جمہوریت کے لیے ہمیں سولر، ونڈ اور ہائیڈرو پاور جیسے ذرائع پر توجہ مرکوز کرنا ہوگا۔ شیری رحمان نے کہا کہ شمالی پاکستان ہائیڈرو پاور کے مواقع سے مالا مال ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان سولر اور ونڈ کے مراکز بن سکتے ہیں،توانائی کا ہر منصوبہ دیہی علاقوں، شہری مراکز اور محروم طبقات کی ضروریات کو مدنظر رکھ کر بنایا جانا چاہیے،کوئی بھی پالیسی مکمل نہیں جب تک وہ تمام وفاقی اکائیوں کی شمولیت کو یقینی نہ بنائے۔

شیری رحمان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اس معاملے پر اتفاقِ رائے ضروری ہے تاکہ پالیسی عوامی نمائندوں کی مرضی سے بنے، ڈسکوز کی نجکاری کے فیصلے پر کھلا مکالمہ ہونا چاہیے کیونکہ عوامی شعبہ پھر بھی جوابدہ ہوتا ہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ مشاورت شفاف، کھلے اور حقیقی انداز میں ہونی چاہیے۔ اس عمل کو ادارہ جاتی شکل دی جائے، سی سی آئی ، پارلیمانی نگرانی اور عوامی آڈٹ کے ذریعے پالیسی کو مستحکم کیا جائے۔

پاکستان میں آج توانائی کی کمی نہیں بلکہ اضافی پیداوار ہے۔ پاکستان میں آج سولر کا انقلاب آ چکا ہے، لوگ نیٹ میٹرنگ سے اپنی بجلی خود پیدا کر رہے ہیں، یہ سولر تبدیلی بنیادی طور پر چین کے تعاون سے آئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کم لاگت، پائیدار اور خودمختار توانائی چاہتے ہیں،قابل تجدید توانائی کو عوام کے لیے سستا اور پُرکشش بنانے کے لیے مراعات دی جائیں۔

پاکستان کا کوئی بھی شہری بجلی کے دائرے سے باہر نہ رہے، یہی ہمارا قومی فریضہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا گرڈ نظام پرانا، غیر مؤثر اور رساؤ سے بھرا ہوا ہے، فوری اصلاحات کی ضرورت ہے،پاکستان کا توانائی کا مستقبل صرف بہتر گورننس، شفاف مشاورت اور تمام اکائیوں کی شمولیت سے ممکن ہے۔ انہوں نے کہاکہ سال میں دو بار توانائی کے شعبے کی کارکردگی پر رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کی جائے،توانائی کے شعبے کی شفافیت اور احتساب کے لیے چھ ماہ بعد رپورٹنگ لازم ہونی چاہیے۔ شیری رحمان نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ پارلیمان توانائی شعبے کی نگرانی کا مؤثر کردار ادا کرے۔