بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید خاندانوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی

شکایات پر ڈیوائس مافیا کیخلاف کارروائی کی جاتی ،بی آئی ایس پی مالی مدد کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانا ہے،سینیٹرروبینہ خالد ہر تین سال بعد سروے میںنئے خاندانوں کو شامل کیا جاتا ہے، گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ پروگرام سے باہر ہو چکے ہیں،چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام

منگل 5 اگست 2025 21:40

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید خاندانوں کی تعداد ایک کروڑ سے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 اگست2025ء)چیئرپرسن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سینیٹر روبینہ خالد نے کہا ہے کہ بی آئی ایس پی سے مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے، ڈیوائس مافیا ہر جگہ موجود ہے، شکایات پر کارروائی کی جاتی ہے،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کسی کو کام کرنے سے نہیں روکتالیکن مالی مدد کے ذریعہ خواتین کو بااختیار بنانا ہے، ہر تین سال بعد ایک نیا سروے کیا جاتا ہے اور نئے خاندانوں کو شامل کیا جاتا ہے، گھر گھر سروے ممکن نہیں اب ڈائنامک سروے کے ذریعے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے، گزشتہ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ پروگرام سے باہر ہو چکے ہیں، بی آئی ایس پی کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والی ایک لڑکی نے کرک بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔

(جاری ہے)

بی آئی ایس پی ہیڈ کوارٹر میں منگل کو یہاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے خاندانوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے آنے سے پہلے یہ تعداد 93 لاکھ تھی لیکن اب ایک کروڑ تک پہنچ گئی ہے اور صرف ایک سال میں 7 لاکھ خاندان اس پروگرام میں شامل ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مستحقین کو ہر تین ماہ بعد وظیفہ دیا جاتا ہے اور یہ 13500 روپے ماہانہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد صرف اپنے وظیفہ پر انحصار نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد کچھ مشکلات کو دور کرنے کے لیے تھوڑی سی مالی امداد فراہم کرنا ہے اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے تاکہ وہ گھر سے باہر نکل سکیں اس سے بہت سی خواتین کو شناختی کارڈ حاصل کرنے کا فائدہ ہوا ہے، پہلے خواتین کے لیے شناختی کارڈ بنوانا گناہ سمجھا جاتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پروگرام کے ذریعے ہر تین سال بعد ایک سروے کیا جاتا ہے اور نئے خاندانوں کو پروگرام میں شامل کیا جاتا ہے۔ ڈیوائس مافیا سے متعلق شکایات پر بی آئی ایس پی کی چیئرپرسن نے کہا کہ جہاں بھی ہمیں شکایات ملتی ہیں ہم ان کے خلاف کارروائی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بی آئی ایس پی میں ملازمین کی کمی ہے کیونکہ 2012 کے بعد بھرتیاں نہیں ہوئیں۔

آدھے سے زیادہ لوگ ڈیپوٹیشن پر ہیں وہ کچھ عرصہ نوکری کرتے ،سیکھتے ہیں اور پھر چلے جاتے ہیں۔ پروگرام کو سیاسی بنانے کے حوالے سے چیئرپرسن نے کہا کہ سابقہ حکومت کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے برطانیہ سے ملنے والے 20 ملین پاؤنڈز روکے گئے جس سے بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کو حکومت پاکستان کے ساتھ ساتھ ورلڈ بینک کی بھی حمایت حاصل ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا بچوں کی تعلیم پر بڑا اثر ہے۔بی آئی ایس پی کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والی ایک لڑکی نے کرک بورڈ میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ جبکہ فورٹ عباس کے بچوں نے بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں جو ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نشوونما پروگرام کے ذریعے 6 فیصد تک بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی کے مختلف پروگرام ہیں جن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ہدایت کی ہے کہ خواتین کو باوقار طریقے سے رقم دی جائے، اس سلسلے میں ہم ڈیجیٹل والیٹ پروگرام لا رہے ہیں جس کے تحت وہ اپنے اکاؤنٹس میں رقم وصول کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جس کو بھی کوئی شکایت ہو وہ ہم سے رابطہ کرے ہم فوراً فالو اپ کر کے کارروائی کریں گے۔ سرکاری ملازمین سے رقم وصول کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے گزشتہ حکومت کی جانب سے آڈٹ پ?راز لگائے گئے تھے جس کی وجہ سے ہمیں ان کو وصول کرنا پڑتا ہے تاہم بہت سے سرکاری ملازمین ایسے ہیں جو کلاس فور کے نیچے آتے ہیں جس کے تحت وہ بھی اس کے حقدار ہیں لیکن پچھلی حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے بہت سے لوگ پروگرام سے باہر ہو چکے ہیں۔

ایک بار حج پر جانے والوں کو بھی اس پروگرام سے باہر رکھا گیا جبکہ ارجنٹ شناختی کارڈ حاصل کرنے والوں کو بھی اس پروگرام سے باہر رکھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خاندان جو اہل ہیں وہ بی آئی ایس پی مراکز پر جائیں اور اپنی رجسٹریشن دوبارہ کرائیں۔ ان کے مراعات دوبارہ شروع ہو جائیں گی۔