پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کے زیر اہتمام گداگری پرپینل ڈسکشن کا انعقاد

جمعہ 8 اگست 2025 23:00

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 اگست2025ء)پنجاب یونیورسٹی انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز کے زیر اہتمام ’پاکستان میں گداگری کے سماجی ،قانونی اور اخلاقی اثرات‘ کے موضوع پر پینل ڈسکشن کا انعقاد کیاگیا جس میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف چترال پروفیسر ڈاکٹرحاضراللہ، ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف سوشل اینڈ کلچرل سٹڈیز ڈاکٹر فرحان نوید یوسف، ڈی جی ایس ای ایس ڈاکٹر ریحان صادق شیخ، ڈائریکٹرشعبہ امور طلبہ ڈاکٹر شاہ زیب خان، سوشیالوجسٹ ڈاکٹر ندیم عباس،بیرسٹر حارث رمضان،سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سے مزمل یار، سینئر صحافی اجمل جامی، سی ای اوچیریٹی کمیشن کرنل (ر)شہزاد عامر ،ماہرین اور طلبائوطالبات نے شرکت کی۔

اپنے خطاب میں وائس چانسلر یونیورسٹی آف چترال ڈاکٹرحاضر اللہ نے گداگری کو ایک سنگین، پیچیدہ اور کثیر الجہتی مسئلہ قرار دیا جو سنجیدہ اور مربوط حل کا متقاضی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے بین الاقوامی امیج کو بچانے کے لیے ابھی سے اقدامات کرنے ہوں گے ۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ گداگر نہ صرف غربت کے چکر کو برقرار رکھتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو شامل کرکے اسے دوبارہ پیدا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خیرات کو ذمہ داری کے ساتھ ادا کیا جانا چاہیے اور تعلیمی نصاب میں کہانیوںاورآگاہی مواد کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے ملک گیر آگاہی مہم، واضح پیغام رسانی کے ساتھ سڑک پرنشانات کے استعمال اور منظم بھکاری نیٹ ورکس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنے پر بھی زور دیا۔ ڈاکٹر فرحان نوید یوسف نے شرکاء کو خوش آمدیدکرتے ہوئے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح پاکستان کا سماجی و ثقافتی ڈھانچہ بھیک مانگنے کے رجحان کو فروغ دیتا ہے۔

انہوں نے اس مسئلے کے ملک کے عالمی امیج پر منفی اثرات اور حکومت، سول سوسائٹی اور عوام کی جانب سے مربوط کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس تقریب نے ممتاز ماہرین تعلیم، قانونی ماہرین، میڈیا پروفیشنلز اور سرکاری حکام کوبھیک مانگنے کے اہم مسئلے اورپاکستانی معاشرے پر اس کے کثیر جہتی اثرات پر غور و خوض کرنے کے لیے اکٹھا ہونے کا موقع فراہم کیا۔

ڈاکٹر ندیم عباس نے ڈبلیو ایچ او کی 2018 کی رپورٹ کے اعداد و شمار پیش کیے، جس میں بتایا گیا کہ دنیا بھرمیں سالانہ 1.2 ملین افراد سڑک کے حادثات میں مرتے ہیں، ٹریفک سگنلز پر بھکاری پاکستان میں سڑکوں کی غیر محفوظ صورتحال میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔مزمل یار نے 1958 کے انسداد گداگری ایکٹ اور 2015 سے کی جانے والی کوششوں کی وضاحت کی جو بحالی، پیشہ ورانہ تربیت اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرتے ہیں۔

اجمل جامی نے زور دے کر کہا کہ خیراتی ادارے، مذہبی اقدار میں گہری جڑیں رکھتے ہیں ، منظم بھکاری نیٹ ورکس کے ذریعے اس کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مذہبی اسکالرز اور طلباء پر زور دیا کہ وہ تبدیلی پیدا کرنے کے لیے متحرک کردار ادا کریں اور نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ سماجی اصلاح کے لیے انفرادی طور پر اقدامات کریں۔بیرسٹر حارث رمضان نے پنجاب ویگرنسی آرڈیننس 1958 میں اہم خامیوں کی نشاندہی کی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان موثریت کی کمی بارے بتایا۔

ڈاکٹر شاہزیب خان نے بتایا کہ کس طرح پنجاب یونیورسٹی کے مختلف شعبہ جات کے طلباء کو گرمیوں کی تعطیلات کے دوران پائیدار ترقی کے اہداف کے مطابق کمیونٹی پر مبنی منصوبوں کو ڈیزائن اور لاگو کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔کرنل (ر) شہزاد عامرنے کہا کہ پاکستان میں ایک مضبوط انسان دوست روایت ہے جس کی جڑیں مذہبی تعلیمات سے جڑی ہیں، جس کا بدقسمتی سے بھکاریوں کے ذریعے استحصال کیا جاتا ہے۔بعد ازاں ڈاکٹر فرحان نوید یوسف اور ڈی جی ایس ای ایس ڈاکٹر ریحان صادق شیخ نے معزز پنلسٹس کو سووینئرز پیش کیے۔