بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں، جسٹس صلاح الدین

ہم کس کے جج ہیں عوام کے یا اشرافیہ کے؟ کبھی کبھی لگتا ہے ہم جج نہیں ڈاکو ہیں، حکمران و ادارے جھوٹ بولتے ہیں، اگر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو استعفیٰ دیکر گھر چلے جائیں؛ سپریم کورٹ جج کا تقریب سے خطاب

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 9 اگست 2025 15:13

بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں، جسٹس ..
عمر کوٹ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 09 اگست 2025ء ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پہنور کا کہنا ہے کہ بعض ججز طاقتوروں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ضمیر کا سودا کرلیتے ہیں، اگر ہم کچھ نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ عمرکوٹ بار ایسوسی ایشن کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ملک کے عدالتی نظام اور اداروں کی کوتاہیوں پر گہرے افسوس کا اظہار کیا اور ان ججز، وکلاء و پولیس افسران کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو عوام کو انصاف کی فراہمی میں تاخیر یا انکار کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے "انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار کے مترادف ہے" کے مقولے کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو عدالت انصاف نہ دے اس کا کوئی فائدہ نہیں، ایک خاتون کو وراثت کا فیصلہ آنے میں 71 سال لگے جب کہ ایک اور شخص کا حادثے سے متعلق کیس 24 سال بعد نمٹایا گیا۔

(جاری ہے)

جسٹس صلاح الدین پہنور نے جاگیرداروں اور بیوروکریٹس کے اثر و رسوخ کے استعمال کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بعض جج طاقتوروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں، ججوں کو بے خوف ہو کر دیانتداری سے فیصلے دینے چاہئیں کیوں کہ حلف سے غداری عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاتی ہے، ہم کس کے جج ہیں عوام کے یا اشرافیہ کے؟ کبھی کبھی لگتا ہے ہم جج نہیں ڈاکو ہیں، پاکستان میں لوگ نیکی کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عمل اس کے برعکس ہوتا ہے، ججز عوام سے براہ راست تعلق قائم کریں کیوں کہ ہمیں خود کو الگ تھلگ رکھنا چھوڑ کر دیکھنا ہوگا کہ لوگ کیسے زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ بالائی سندھ میں "ڈاکو کلچر" اور زیریں سندھ میں "منشیات کی وباء" ہے، خاص طور پر عمرکوٹ میں یہ پورے نظام کو مفلوج کرچکی ہے، سکھر کے ایک ایس ایس پی نے جرائم پر قابو پانے میں بے بسی کا اعتراف کیا، عمرکوٹ پولیس جرائم روکنے کی بجائے بھتہ خوری میں مصروف ہے، ایک سابق سیشن جج کے دور میں جرائم میں اضافہ ہوا، ہمارے حکمران جھوٹ بولتے ہیں، ہمارے ادارے جھوٹ بولتے ہیں، اور عوام نے بھی سچ بولنا چھوڑ دیا ہے۔ اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو یہ نظام تباہ ہو جائے گا۔