کتابوں پر پابندی علم کے فروغ اور آزادی اظہار کے لئے نقصان کا باعث بنے گی، انورادھا بھسین

پیر 11 اگست 2025 15:23

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 اگست2025ء) معروف انگریزی اخبار''کشمیر ٹائمز'' کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر اور مودی حکومت کی طرف سے ممنوعہ قراردی گئی25کتابوں میں سے ایک کی مصنفہ انورادھا بھسین نے کتابوں پر پابندی کے محرکات ، طرز عمل اورشواہد پر سوالات اٹھاتے ہوئے خبردارکیاہے کہ یہ اقدام علاقے میں علم، اس کے فروغ اور آزادی اظہار کے لئے طویل المدتی نقصان کا باعث بنے گا۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق انورادھا بھسین نے جن کی کتاب ’’اے ڈسپنٹل سٹیٹ :دی ان ٹولڈ سٹوری آف کشمیر آفٹر 370‘‘پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر انتظامیہ نے ممنوعہ کتابوں کو تشدد یا دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا اور نہ ہی اس نے کسی خاص قابل اعتراض حوالے کی نشاندہی کی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آیا حکام نے کتابوں کو ''علیحدگی پسند ادب'' قراردینے سے پہلے پڑھا بھی ہے یا یہ فیصلہ محض سیاسی مقاصد کے لئے ایک بیوروکریٹک ہتھکنڈا ہے۔

انورادھابھسین نے کہا کہ پابندی دفعہ370 کی منسوخی کے چھ سال مکمل ہونے پراور سرینگر میں حکومت کے زیر انتظام کتاب میلے کے دوران عائد کی گئی ، جس سے ظاہر ہوتاہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں امن اور ترقی کے حکومت کے دعوئوں کو چیلنج کرنے والے بیانیے کو بھارتی حکومت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے اسے ایک وسیع تر آمرانہ پابندی کا حصہ قراردیا جس نے پہلے ہی صحافیوں کو خاموش کر دیا ہے، میڈیا آرکائیوز کو مٹا دیا ہے اور خوف کی فضا قائم کردی ہے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ پابندیاں نوجوان قارئین اور محققین کو تنقیدی تاریخی اور سیاسی مواد سے محروم کر دیں گی، کشمیر پر اسکالرشپ اور پبلشرز کو اس موضوع پر مواد چھاپنے سے روکیں گی۔ بھسین نے کہا کہ پابندی کے تناظر میں کتابوں کی دکانوں پر چھاپے ممنوعہ کتابوں کے علاوہ بھی پکڑدھکڑ بڑھا سکتے ہیں، عوام کو پریشان کر سکتے ہیں اور فکری آزادی کو روک سکتے ہیں،سنسر شپ کے باوجودممنوعہ کتابوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ اقدام الٹاپڑ سکتا ہے۔ انورادھابھسین نے لکھنا جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ خیالات کو دبانے کی حکومت کی کوشش نے کشمیر کے بارے میں سچ بولنے اور لکھنے کی ضرورت کو مزید تقویت دی ہے۔