اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 اکتوبر 2025ء) سن1901 میں، جب پہلا نوبل انعام دیا گیا، سائنس کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ تب سے اب تک سائنسی تحقیق، اس کے دائرہ کار اور اثرات میں انقلابی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا فطری ہے: کیا اب وقت آ گیا ہے کہ سائنسی خدمات کے اعتراف کا کوئی نیا، جامع اور عصری طریقہ اپنایا جائے؟
نوبل پرائز کی تاریخ
نوبل انعامات، جو سویڈن کے موجد اور صنعت کار الفریڈ نوبل کی وصیت کے تحت 1895 میں قائم کیے گئے، دنیا کے سب سے معتبر اعزازات میں شمار ہوتے ہیں۔
الفریڈ نوبل، جنہوں نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا، چاہتے تھے کہ ان کی دولت ان افراد کو دی جائے، جو انسانیت کی بھلائی کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔یہ انعامات ہر سال مختلف شعبوں میں دیے جاتے ہیں لیکن آج کے پیچیدہ اور بین الشعبہ جاتی سائنسی ماحول میں، کیا یہ اعزازات اب بھی وہی معنویت رکھتے ہیں یا ہمیں ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے جو جدید سائنسی کامیابیوں کی بہتر نمائندگی کر سکیں؟
یہ انعامات کیمیائی علوم میں، ایجادات اور تحقیقات کے لیے، طب اور فزیالوجی، ادبی کاموں میں شاندار خدمات اور علاج میں پیشرفت کے علاوہ دنیا میں امن کی کوششوں اور تنازعات کے حل اور معاشی نظریات اور پالیسیوں کے ضمن میں خدمات کے لیے دیے جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوبل پرائز حاصل کرنے والوں کو خوشخبری سنانے کا طریقہ کار
ہر سال اکتوبر میں، چند سائنس دانوں کو ایک فون کال سے بیدار کیا جاتا ہے یہ بتانے کے لیے کہ انہیں فزیالوجی، میڈیسن، طبیعیات یا کیمیا کے نوبل انعام سے نوازنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ خوشی اور حیرانی کے ساتھ ساتھ نیند کے خمار سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے، نوبل انعام پانے والے اپنے پاجامے پر شرٹ پہن کر اسٹاک ہوم کی ویڈیو کال میں شامل ہوتے ہیں اور متعلقہ شعبوں میں اپنی زندگی بھر کی تحقیق کی تفصیلات دنیا کی میڈیا کو چند منٹوں میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
صحافی پھر ''کوانٹم ڈاٹس‘‘ یا ''انٹینگلڈ فوٹونز‘‘ جیسی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، اپنی رپورٹس فائل کرتے ہیں اور پھر سکون کا سانس لیتے ہیں کہ یہ سب اب اگلے سال تک کے لیے ختم ہو گیا۔ اگلے ہفتے تک وہ یہ سب بھول چُکے ہوتے ہیں۔ یہ لامتناہی نیوز سائیکل کی ایک اور جھلک ہے۔
نوبل پرائز پر اُٹھنے والے سوالات
نوبل انعامات سائنسی دریافتوں کو مقبول بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
لیکن یہ سوالات بھی اب جنم لینے لگے ہیں کہ کیا اس انعام کی تقسیم کا اعلان نت نئی سائنسی دریافتوں کے طریقہ کار کے بارے میں غلط تاثر دینے امریکہ اور یورپ کی متعلقہ شعبوں میں دریافتوں سے متعلق برتری اور سائنسی شعبے میں مردوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں؟بلاشبہ نوبل انعامات سائنسی دریافتوں کے عروج کو ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جزباتی لگاؤ ہوتا ہے۔
بھارت میں پبلک ہیلتھ کے پروفیسر راجب داس گپتا کہتے ہیں، ’’یہ انعامات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم ڈی این اے، ویکسینیشن، بگ بینگ اور سب ایٹامک پارٹیکلز کی تھیوریز کے بعد نئی سائنسی پیشرفتوں کے دور میں خوش قسمت ہیں۔‘‘کیا نوبل انعامات واقعی لوگوں کو متاثر کرتے ہیں؟
نوبل انعامات سائنس کو عوامی دلچسپی کا مرکز بنانے کا ایک مؤثر ذریعہ ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک کے تعلیمی نصاب میں بچوں کو نوبل انعامات کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ ان میں سائنس کے لیے شوق پیدا ہو۔ لیلی گرین برطانیہ میں 11 سے 18 سال کے طلبہ کو بائیولوجی پڑھاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں بتایا کہ وہ اپنی کلاسوں میں نوبل انعامات کا تاریخی پس منظر ضرور سکھاتی ہیں لیکن ہر سال اکتوبر میں ہونے والے انعامات کے اعلانات کو باقاعدگی سے نہیں دیکھتیں۔انہوں نے کہا، ''ہم نوبل انعامات کو سائنس کے بنیادی تصورات سمجھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق، وہ دریافتیں زیادہ مؤثر ہوتی ہیں، جو طلبہ کی دلچسپی کو کسی دلچسپ کہانی یا اسکینڈل کے ذریعے اپنی طرف کھینچتی ہیں، جیسے بیری مارشل کی مثال، جنہوں نے خود کو بیکٹیریا سے متاثر کر کے یہ ثابت کیا کہ یہ السر کا سبب بنتے ہیں۔
تاہم لیلی گرین اس امر کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں کہ نوبل انعامات طلبہ کو یونیورسٹی میں سائنس پڑھنے کی ترغیب دینے میں کوئی خاص کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ عام طور پر سائنس میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن نوبل انعام جیتنے کی خواہش ان کی متحرک نہیں کرتی۔
نوبل انعامات میں تنوع کی کمی
نوبل انعامات پر سب سے بڑی تنقید یہ کی جاتی ہے کہ ان کے حاصل کنندہ کی فہرست میں تنوع کی کمی اور مغربی سائنسی اداروں کی طرف جانبداری ہے۔
سائنسز میں 15 فیصد سے کم نوبل لاریٹ خواتین ہیں جبکہ یورپ اور امریکہ سے باہر ممالک کے لوگوں کو سائنس میں نوبل انعام بہت کم ملا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنینوبل لاریٹس کی تعداد کے ضمن میں غالب نظر آتے ہیں، جن کی مجموعی تعداد 468 ہے۔ چین کے پاس آٹھ اور بھارت کے پاس 12 نوبل لاریٹس ہیں۔ڈاکٹر
راجیب داس گپتا ایک ماہرِ طب اور صحتِ عامہ کے پروفیسر ہیں، جو نئی دہلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' زیادہ تر انعامات حاصل کرنے والے مستحق ہوتے ہیں لیکن یہ فیصلے سیاسی ہوتے ہیں۔ اس میں بہت سے ممالک کے ادارے نظر انداز کیے جا رہے ہیں اور یقینی طور پر نوبل کمیٹیاں جتنی جامع ہونی چاہییں، اتنی نہیں ہیں۔‘‘نوبل انعامات عدم مساوات کو مزید بڑھا سکتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے انعام یافتہ اداروں کو مزید فنڈنگ دیتے ہیں۔ لیکن داس گپتا نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور دیگر جگہوں کے اداروں کو امریکہ یا یورپ سے مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط ہونا پڑے گا، تب ہی یہ ممالک اپنے تخلیقات کو اس مقابلے میں پیش کر سکیں گے۔
ادارت: امتیاز احمد