ہمارے علاقوں پر حملہ پاکستان کی غلطی سمجھتے ہیں‘ افغانستان کو چھیڑنا اچھا نہیں، افغان وزیرِ خارجہ

تاریخ بتاتی ہے مسائل زور سے حل نہیں کیے جا سکتے، ایک بار انگریز سے پوچھیں، پھر سوویت یونین سے پوچھیں، پھر امریکہ سے پوچھیں، پھر نیٹو سے پوچھیں تاکہ آپ کو تھوڑا سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ ایسا کھیل اچھا نہیں؛ امیر خان متقی کی پریس کانفرنس

Sajid Ali ساجد علی ہفتہ 11 اکتوبر 2025 11:43

ہمارے علاقوں پر حملہ پاکستان کی غلطی سمجھتے ہیں‘ افغانستان کو چھیڑنا ..
نئی دہلی/کابل ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 11 اکتوبر2025ء ) افغانستان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کا کہنا ہے کہ ہمارے دور دراز علاقوں پر حملہ ہوا ہے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں اور اسے پاکستان کی غلطی سمجھتے ہیں۔ بھارت کے دورے کے دوران نئی دہلی میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمارے دور دراز علاقوں میں حملہ کیا ہے اور ہم اسے پاکستان حکومت کی بڑی غلطی سمجھتے ہیں، افغانستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے مسائل زور سے حل نہیں کیے جا سکتے۔

افغان وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ایک بار انگریز سے پوچھیں، پھر سوویت یونین سے پوچھیں، پھر امریکہ سے پوچھیں، پھر نیٹو سے پوچھیں، تاکہ آپ کو تھوڑا سا سمجھائیں کہ افغانستان کے ساتھ ایسا کھیل کرنا اچھا نہیں ہے، جو لوگ یہ بات کررہے ہیں کہ افغانستان سے خطرہ ہے وہ ثبوت بھی پیش کریں، کوئی بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کرسکتا، وہاں ہماری مضبوط حکومت ہے، ہم نے مذاکرات کا راستہ کھولا ہے، جس ملک کی جو مشکلات ہیں وہ خود حل کرے۔

(جاری ہے)

دوسری طرف ترجمان فارن آفس پاکستان شفقت علی خان نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران افغانستان میں مبینہ پاکستانی فضائی کارروائیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف سرحدی علاقوں میں اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے ہدفی کارروائیاں کرتے ہیں، یہ آپریشنز صرف دہشت گرد گروہوں کے خلاف کیے جاتے ہیں، بالخصوص ان گروہوں کے جن سے پاکستان کی سلامتی کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے، جن میں فتنہ الخوارج اور ٹی ٹی پی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ کارروائیاں مستند اور قابلِ تصدیق انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر انتہائی احتیاط اور درستگی کے ساتھ انجام دی جاتی ہیں، پاکستان افغانستان کے اندرونی علاقوں میں کسی جارحانہ کارروائی میں ملوث نہیں ہے، پاکستان کا واحد مقصد اپنے عوام کو سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے، پاکستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے اور اس کے اقدامات ہمیشہ بین الاقوامی قوانین اور سفارتی اصولوں کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے افغان حکام پر زور دیا کہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دیں، ٹی ٹی پی جیسے گروہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے مشترکہ خطرہ ہیں، جن کا مقابلہ اجتماعی کوششوں کے ذریعے ہی ممکن ہے، پاکستان افغانستان کے ساتھ مسائل کے حل کے لیے بات چیت اور تعمیری روابط پر پختہ یقین رکھتا ہے، دونوں ممالک کا مفاد دہشت گردی کے خاتمے اور خطے میں امن و استحکام کے قیام میں ہے، ہم چاہتے ہیں افغانستان اپنی خودمختاری اور سلامتی کو مکمل طور پر بحال کرے اور ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کیخلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔

شفقت علی خان نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے دورہ بھارت کے حوالے سے سوال کا جواب دیا کہ افغانستان کے کسی تیسرے ملک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اس کا خودمختار معاملہ ہیں، ہم اس پر کوئی مخصوص تبصرہ نہیں کرتے، ہماری مستقل درخواست یہی رہی ہے کہ افغانستان اپنی خارجہ پالیسی میں آزادی رکھتا ہے لیکن اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونی چاہیئے، افغانستان سے دہشت گردی کے خطرے کا معاملہ کابل حکام کے ساتھ پاکستان کی تمام سطحوں پر بات چیت کا مستقل حصہ ہے، وزیرِاعظم سے لے کر اعلیٰ حکومتی حکام تک سب نے اس مسئلے کی سنگینی افغان حکام کے سامنے واضح انداز میں رکھی ہے۔

بریفنگ کے دوران ان سے سوال ہوا کہ ’وزیرِ دفاع نے قومی اسمبلی میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ افغانستان نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی حوالگی کے لیے 10 ارب روپے کا مطالبہ کیا، اس بارے میں دفترِ خارجہ کا کیا مؤقف ہے؟‘، اس پر ترجمان نے وضاحت دی کہ ’میرا نہیں خیال وزیرِ دفاع نے یہ بات اس انداز میں کہی، دراصل انہوں نے کہا تھا افغان فریق نے دہشتگردوں کو منتقل کرنے کیلئے 10 ارب روپے مانگے تھے، ہم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ نئی جگہ پر منتقل ہونے کے بعد یہ دہشت گرد پاکستان پر حملے نہیں کریں گے؟ تاہم افغان فریق اس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دے سکا اور یہی بات وزیرِ دفاع نے بیان کی تھی‘۔